Maktaba Wahhabi

39 - 70
خطیر رقم لی جسے وہ ادا نہ کر سکے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نہایت سختی سے باز پرس کی اور معزول کر دیا۔ ولید بن عقبہ نے بادہ نوشی کی تو معزول کر کے اعلانیہ حد جاری کی۔ خ رحمہ اللہ فائے راشدین جو عمال کی کڑی نگرانی کرتے تھے حتیٰ کہ کسی عامل کو رشوت ستانی، ذخیرہ اندوزی اور بد دیانتی کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ سب س سخت محاسبہ وہ اپنی ذات کا کرتے تھے۔ خلفائے راشدین ایک متوسط آدمی کا خرچ بیت المال سے لیتے تھے اور جیسا کہ تاریخ طبری میں ہے۔ ’’حلۃ فی الصیف وحلۃ فی الشتا (ایک جوڑا گرمیوں میں اور ایک جوڑا سردیوں میں )‘‘ اس سے زیادہ بیت المال میں اپنا حق نہ سمجھتے تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ خلافت کے بعد حسب معمول کندھے پر کپڑ کے تھان رکھ کر بازار کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی انہوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’اب آپ مسلمانوں کے حاکم ہیں ۔ اگر آپ حسبِ معمول کپڑا فروخت کرتے رہے تو خلافت کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونا آپ کے لئے مشکل ہو جائے گا۔‘‘ زمانہ خلافت میں انہیں بیت المال سے چھ ہزار روپیہ قرض لینا پڑا۔ وفات کے وقت وصیت فرمائی کہ میرا فلاں باغ بیچ کر میرا قرض ادا کیا جائے اور میرے مال سے جو چیز فالتو نظر آئے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دی جائے۔ خلافتِ راشدہ کی تاریخ کا ہر ہر ورق یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ عہد دیانتداری، راست بازی اور عوام کی خوشحالی کا ایک بے مثال عہد تھا اور پاکستان کی تمام الجھنوں کا حل اسی میں ہے کہ اس ملک کو خلافت راشدہ کے سانچے میں ڈھال دیا جائے۔ یہ تقریر گذشتہ دنوں ریڈیو پاکستان کے تقریباً تمام سٹیشنوں سے نشر کی گئی۔
Flag Counter