٭ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’جو شخص رکوع میں شامل ہو تو اس کا قیام اور سورۂ فاتحہ کی قرأت فوت ہوگئی،جبکہ(رکعت شمار کرنے کے لیے)یہ دونوں فرض ہیں ،ان کے بغیر نہیں ہوتی اور حدیث رسول میں حکم دیا گیا ہے کہ جو گزر جائے اس کی قضا کی جائےاور جو رہ جائے اسے(امام کے سلام پھیرنے کے بعد)پورا کیا جائے،ان میں سے کسی امر کی تخصیص نص شرعی کے بغیر جائز نہیں (کہ فلاں رکن کے چھوٹنے کے باوجود نماز ہوجائےگی)اور ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ۔‘‘[1] ٭ سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر کوئی شخص رکوع نہ کرے۔‘‘[2] ٭ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’امام کو اگر رکوع جانے سے پہلے کھڑے نہ پالو تو تمہاری وہ رکعت نہ ہوگی۔‘‘[3] ٭ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’کوئی شخص سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر رکعت شمار نہ کرے۔‘‘[4] ٭ علامہ نواب صدیق الحسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتاب ’’جزء القراءۃ‘‘میں فریا ہے کہ رکوع میں ملنے سے رکعت نہیں ہوتی اور یہ ہر اس شخص کا مذہب ہے جو قرأت ِ فاتحہ خلف الامام کو واجب سمجھتا ہےاور جمہور اہل علم چونکہ قرأت فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں ،اس اعتبار سے رکوع میں ملنے کی رکعت کا نہ ہوناجمہورکا مسلک ہوا۔‘‘[5] ٭ علامہ عبدالرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’میرے نزدیک انہی کاقول راجح ہے جو کہتے ہیں کہ جو شخص امام کو رکوع میں پائے وہ اس رکعت کو شمار نہ کرے۔‘‘[6] |