انسانی قانون اور الٰہی قانون میں فرق کی ایک واضح مثال انسانوں کے بنائےہوئے قانون اور شریعت کے بتلائے قانون میں جتنا عظیم فرق ہے اور ان دونوں کے مؤثر یا غیر مؤثر ہونے کا جو تعلق ہے،اس کا اندازہ ایک مثال اور واقعے سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ روزنامہ’’جنگ‘‘کے کالم نگار خلیل احمد نینی تال والا نے،اپنے ایک کالم میں شاہ فیصل کا یہ واقعہ نقل کیا ہے،موصوف لکھتے ہیں : ’’آج سے 40چالس سال قبل مرحوم شاہ فیصل سے دورۂ امریکہ میں ایک مشہور یونیورسٹی میں ایک پروفیسر نے سوال کیا کہ سعودی عرب میں سزائے موت کیوں ہے جبکہ امریکہ جیسےمہذب ملک میں قتل کے بدلےقید کی سزا ہوتی ہے۔اس کے جواب میں مرحوم شاہ فیصل نے 2 دلائل دئیے پہلا آپ کا قانون مظلوم کو انصاف دینے کے بجائے ظالم کو بچانے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔اور صرف ایک کمزوردلیل پر رہا کر دیتا ہے جس وجہ سے صرف نیویارک میں ہر سال 10 ہزار سے زیادہ بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور ملزم چند سال گزار کر رہا ہوجاتا ہےانہوں نے بتایاکہ صرف نیویارک میں 8ہزار سے زیادہ اس سال قتل ہوچکے ہیں ۔جواب میں پانچ ہزار کے قریب افراد پکڑے گئے جن کو 14 سال کی سزا ہوئی جو کٹ کر آدھی رہ جائےگی۔بتایاجائے مقتول کو کہاں انصاف ملا جبکہ نیویارک سے پانچ گنا بڑا ملک سعودی عرب میں پورے سال میں 10قتل ہوئے ہم نے ان 10 قاتلوں کو چند ہفتوں میں مجرم ثابت کر کے ان کے سر قلم کردئیےایک طرف مقتول خاندان کو انصاف مل گیاتودوسری طرف کروڑوں افراد کو سبق مل گیا کہ قاتل بچ نہیں سکتا اورقتل کرنےسے پہلے 100دفعہ سوچے گا،بتائیں صرف 10ا فراد کی قربانی دے کر ہم نے کروڑوں افراد کو تحفظ فراہم کر کے مثال قائم کردی ہے۔آپ کا مہذب معاشرہ 5 ہزار افراد کو سزائیں دے کر بھی تحفظ فراہم نہ کرسکا تو ظالم آپ ہوئے یا ہم۔۔۔۔‘‘[1] |