ہے کہ اسے ایک طلاقِ رجعی شمار کرکے خاوند کو عدت کے اندر صلح اور رجوع کرنے کاحق دیا جائے تاکہ گھراجڑنے سے بچ جائے لیکن علمائے احناف اپنے فقہی جمود کی وجہ سے یہ معقول راستہ اختیار کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں بے شمار خاندان اس جمود کا شکار ہوکر اجڑ چکے ہیں اور آئے دن یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ،حتی کہ نوبت بہ ایں جارسید کہ بھاریت سپریم کورٹ نے اس طریقہ طلاق کو سب سے بدترین قسم قرار دیا اورپھر بالآخر اس کو غیر قانونی بھی قرار دے دیا۔(یہ دونوں خبریں آخر میں ملاحظہ کریں ) بھارتی مسلمانوں کے ’مسلم پرسنل لابورڈ‘اس فیصلے کو ردّکردیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ مسلمانوں کےمذہب میں مداخلت ہے،ان کے مطابق بھارتی آئین بھی ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق فیصلے کرنے کا حق دیتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی بورڈ کے سیکرٹری جنرل مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا ہے کہ مسلمانوں میں طلاق کی شرح بالکل نہ ہونے کے برابر ہے،اس لئے اس مسئلے کی آڑ میں ہندولابی یکساں سول کوڈ لانا چاہتی ہے ،ورنہ سرے سے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ہم موصوف کی رائے سے تو متفق ہیں کہ یکساں سول کوڈ کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جائے،یہ بھارتی مسلمانوں کا مذہبی حق بھی ہے اور آئینی طورپر بھی درست ہے ۔لیکن اس رائے سے اتفاق مشکل ہے کہ سرے سے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اور طلاق کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ہم پاکستان میں بھی سالہا سال سے دیکھ رہے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کی وجہ سے گھر اجڑ رہے ہیں ،بچے اور عورتیں بے سہارا ہورہی ہیں ۔اور ہم سمجھتے ہیں اور اس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ بھارت میں بھی اس مسئلے کی وجہ سے مسلمان عورتیں اور بچے مظلومیت کا شکار ہیں ۔اس لئے مسلم پرسنل لابورڈ،ہندکا یہ دعوی کہ یہ مسئلہ ہی نہیں ہے،شتر مرغ کی طرح سرریت میں چھپانے سے مختلف نہیں ہے۔ یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ مسلم پرسنل لابورڈ نے ایک دستخطی مہم شروع کی ہے جس میں مسلمان عورتوں سے یہ |