Maktaba Wahhabi

288 - 389
چونکہ جمہور اہل علم قیاس کو حجت اور مصدر شرع سمجھتے ہیں اس لیے یہاں ان کے دلائل اور ابن حزم کے جوابات کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔ قیاس اور رائے میں فرق تھوڑی دیر بعد ذکر کیا جائے گا۔ حجیت قیاس کے سلسلہ میں جمہور کے چند دلائل حسب ذیل ہیں: قرآن کے قیاس کے طریق پر پیش کردہ دلائل۔ جو کہ ابن القیم کے نزدیک چالیس سے زائد ہیں۔[1] مثال کے طور پر قرآن میں ہے کہ عیسی کی مثال آدم کی طرح ہے۔[2] یعنی عیسی علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کیا تو آدم علیہ السلام کو بھی بغیر باپ ہی کے پیدا کیا تھا۔ آدم کی پیدائش کو مان لینا اور عیسی کی پیدائش پر شک کرنا درست نہیں۔ اسی طرح ایک مقام پر ہے: ﴿ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا كَذَلِكَ الْخُرُوجُ ﴾[3] ’’ ہم نےاس سے مردہ زمین کو زندہ کیا، اسی طرح (میتوں کا) اٹھنا ہے۔‘‘ یعنی فوت ہونے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا ناممکن نہیں بلکہ ایسا ہی ہے جیسے مردہ زمیں کا بارش کے بعد زرخیز اور آباد ہوجانا۔ ﴿ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ﴾[4] ’’اگر یہ لوگ اس رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔‘‘ یعنی اخذ و استنباط کرنے کا کہا گیا ہے اور اخذ و استنباط کا بڑا حصہ قیاس میں پایا جاتا ہے۔ ﴿ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ ﴾ [5] یہاں اہل بصیرت کو اعتبار یعنی مشابہت و مماثلت کی وجہ سے عبرت پکڑنے کا کہا گیا ہے۔ حدیث معاذ جس میں ہے کہ قرآن و سنت میں مسئلہ کا حل نہ ملے تو اجتھد برائیی و لا آلو میں اجتہاد سے اپنی رائے اختیار کروں گا اور مجھے کسی کی پروا نہ ہوگی۔[6]
Flag Counter