Maktaba Wahhabi

367 - 389
فصل دوم : ابن حزم اور جمہور کے مناہج اجتہاد سے مستنبط رہ نما اصول ابن حزم اور جمہور علما کے مناہج اجتہاد کیا ہیں۔ ان پر بیانیہ اور تقابلی دونوں سطح پر گفت گو ہو چکی ہے نیز اس کا بھی جائزہ پیش کیا جا چکا ہے کہ ابن حزم کے نظریۂ اجتہاد کے اسلام کی فکری تاریخ پر کیا اثرات واقع ہوتے ہیں اور کن نابعہ روزگار شخصیات کو ابن حزم نے متاثر کیا ہے اس پر بھی گذشتہ سطورمیں سیر حاصل بحث ہو چکی ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو تعصب کی نظر سے ابن حزم کا مطالعہ نہیں کرتا ،بل کہ فہم و بصیرت اس کے پیش نگاہ ہوتی ہے، اس پر ابن حزم کے اثرات قائم نہ ہوئے ہوں ۔ لطف کی بات یہ کہ اسلامی علوم افکار کی تاریخ میں جن جن اہل علم نے تاریخ کے رخ موڑے ہیں اور تجدید دین کی ذمہ داریوں کو نبھایا ہے ۔سب ہی ابن حزم کے طالب علم نظر آتے ہیں،ان کی علمی شخصیت پر ابن حزم کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے باوجود یہ کہ انھوں نے کچھ گوشوں پر کڑی تنقید بھی کی ہو۔ لیکن جہاں ابن حزم سے فکری سطح پر اختلاف نہیں ہے وہاں ابن حزم کی تعریف بھی کی ہےاور استفادہ بھی کیا ہے۔ جس سے یہ نکتہ عیاں ہوتا ہے کہ ابن حزم ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں جن کے اثرات اسلامی فکر پر بے حد واضح دکھائی دیتے ہیں ۔ ذیل میں جمہور اور ابن حزم کے نظریہ اجتہاد پہ عصر جدید کےلیے کون سے رہ نما اصول مستنبط ہوتے ہیں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ باب اجتہاد تا قیامت کھلا ہے تیسری صدی ہجری کے بعد کہ جب امت نے چند فقہائے کرام کو رہ نما مان کر ان کی تقلید شروع کر دی تھی،اس وقت سے باوجود یکہ انھوں نے اس فکر کی کسی بھی سطح پر کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی،امت ایک بڑے طبقے سے فرض کر لیا اور بہت سارا اس پر لکھا بھی گیا کہ آئمہ کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے ۔اب دنیا میں مجتہد مطلق کو پیدا نہیں ہونا، لہٰذا خیر و بھلائی اسی میں ہے کہ فقہائےاربعہ کے دامن علم سے وابستہ ہو جائیں اور تقلید کی روش کو اختیار کر لیں.اس فکر کے جڑ پکڑنے کے بعد ابتدائی صدیوں میں ابن حزم وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس کا بہت شدت سے رد کیا اورپورے شرح وبسط سے اجتہاد کے تاقیامت جاری رہنے کے دلائل و براہین دیے۔ یہاں تک کہ انہوں نے پہلی بار اس نظریہ پر گفتگو کی کہ اجتہاد ہر مسلمان کی ذمہ داری ہےاگرچہ وہ اجہل الناس کیوں نہ ہو، البتہ فرق صرف اسی قدر ہوگا کہ ان کا دائرہ اجتہاد دیگر سے مختلف ہوگا ،وہ
Flag Counter