Maktaba Wahhabi

381 - 389
فصل سوم: جدید مسائل کے حل میں ابن حزم کے تصور اجتہاد سے استفادے کی راہیں ابن حزم کےنظریہ اجتہاد اور اس پر کی جانے والی تفریفات کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا کہ جدید پیش آمدہ مسائل کے حل میں منہج ابن حزم جس قدر اپنے اندر وسعت اور گیرائی رکھتاہے شاید ہی کسی دوسرے مکتب فکر میں موجود ہو ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دوسرے منا ہج اجتہاد کا مسئلہ یہ ہے کہ شرعی مسائل میں علت و قیاس کی بو قلمونی کےمحتاج ہے جس میں سب سے پہلے احکام کی علت کے تلاش کی چارہ جوئی کی جائے گی ۔جس میں بہ ہر حال یہ خدشہ ہے کہ خدا کی حقیقی مطلوب علت تک رسائی ہوسکی ہے یا نہیں، اور پھر قیاس ایک اور نیا مسئلہ ہےکہ اس میں اتفاق علت کے تلاش میں بھی غلطی کا پورا امکان ہے۔ جب کہ ابن حزم کے مذہب کی خوبی یہ ہے تمام جدید پیش آمدہ مسائل کی بنیادیں اور حکم بلاواسطہ شریعت کے نصوص سے ہی تلاش کیے جائیں گے جہان ظن وتخمین کے پیمانوں کی ضرورت ہی ختم ہو جاتی ہے اور اعمال کے باب میں شک و اثبات کا احتمال بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے جدید مسائل کے حل میں ابن حزم کا نظریہ اجتہاد زیادہ قابل اعتماد ہے ۔ جدید مسائل کے سلسلہ میں ابن حزم کے منہج سے استفادے کی کیا راہیں نکلتی ہیں، ذیل میں مثالوں کے ذریعےاس کی وضاحت کی جاتی ہے۔ 1- معدنیات کی ملکیت کے مسائل عصر حاضر میں معدنیات کے اخراج کے سلسلہ میں بہت کاوشیں ہو رہی ہیں۔دنیا میں جہاں بھی کھدائی کی جارہی ہے وہاں خدا کے عطیہ کردہ خزائن سے بے بہا نت نئی چیزیں برامد ہو رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں محل نراع یہ ہےکہ وہ قطعٔہ ارضی جہاں سے کوئی معدنی اشیاء مثلاً سونا، چاندی ،پیٹرول گیس وغیرہ نکلیں گے، اس کی ملکیت حکومت وقت یا ریاست کی طرف منتقل ہوجائے گی یا پھر اس کا مالک وہی شخص ہوگا کہ جس کی اراضی سے وہ معدنیات برآمد ہوں گے؟ اس سلسلہ میں جدید دنیا میں یہ رسم ہے کہ وہ حکومت کو منتقل ہو جائیں گے،یہی امام مالک کا نقطہ نگاہ ہے۔ ابن حزم رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں حق ملکیت اس شخص کو دینے کے قائل ہیں کہ جس کی اراضی سےاصلاً یہ نکلتی ہے اور یہی قرین انصاف ہے۔ ابن حزم نے ان فقہا وکے مؤقف کو شدت اور دلائل سے رد کیا ہے جو حکومت کی ملکیت کے قائل ہیں اور کلاسیکلی فقہ میں بیشتر فقہاء کا بھی یہ ہی نقطہ نگاہ ہے۔ جدید ریاست میں ایسی تمام معدنیات کو پبلک پراپرٹی تصور کرکے حکومت کے زیر قبضہ دے دیا جاتا ہے،یہ شاید سوشلزم کے زیر اثر ہو اہے کہ جہاں تصور ملکیت اجتماعی ہے۔ ابن حزم کے نقطہ نگاہ کے مطابق فرد ہی اس کا مالک ہے اور وہ خود ہی اس سے فائدہ اٹھائے اور دیگر لوگوں کو بھی فروخت کرے اور مالی منافع حاصل کرے۔ ہمارے
Flag Counter