Maktaba Wahhabi

342 - 389
اول: ابن حزم جمہور کے ساتھ استصحاب کے قائل ہیں، البتہ ان کا استصحاب نص کے ساتھ مقید ہے۔تمام مسائل کے بارے میں نصوص نفیاِ یا اثباتاً موجود ہوتی ہیں ، استصحاب کا وظیفہ ان کے نزدیک ان دلائل کو علی حالہ باقی رکھنا ہے جب تک کہ اس کے مخالف دلیل ثابت نہیں ہو جاتی۔ دوم: ابن حزم نتیجے میں تو جمہور کے ساتھ متفق ہیں لیکن اس نتیجے تک پہنچنے کا روٹ مختلف ہے۔ سوم: ابن حزم کی موافقت جمہور کے اس گروہ سے زیادہ ہے جو استصحاب کے استعمال میں توسع اختیار کرتا ہے(شافعیہ و حنابلہ) برخلاف ان کے جو اس کا استعمال نفیاََ کرنے کے قائل ہیں ، اثباتاً نہیں(حنفیہ و مالکیہ) چہارم: موافقت سے آگے بڑھ کر ابن حزم استصحاب کے باب میں شافعیہ اور حنابلہ سے بھی زیادہ توسع کے قائل ہیں جس کی وجہ سے بسا اوقات عجیب و غریب نتائج کا ظہور ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ان کا دلائل ثلاثہ کے علاوہ قیاس تک سے اعراض نظر آتا ہے جس کی وجہ سے استصحاب کے استعمال کی کثرت نظر آتی ہے۔ پنجم: ابن حزم استصحاب کی اقسام پر گفتگو نہیں کرتے، استصحابِ حال کو مجموعی طور پر استصحاب کے نام سے اپناتے ہیں۔ ششم: قواعد فقیہ بر بنائے استصحاب کے حؤالے سے ابن حزم کا رویہ جمہور سے ہم آہنگ نظر آتا ہے، اگرچہ یہاں بھی دلائل کا اسلوب ان کا اپنا ہے۔ ہفتم: فقہی مسائل میں ابن حزم استصحاب کی بنا پر توسع اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں اور بعض ایسے نتائج کا استخراج بھی کرتے ہیں جو عقلِ عام سے لگا نہیں کھاتے۔ ہشتم: ابن حزم نے دراصل انکارِقیاس سے پیدا ہونے والی دشواریوں کا حل استصحاب کے فراواں استعمال سے نکالا ہے اور اس میں بڑی حد تک کام یاب بھی ہوئے ہیں، اگرچہ ان کے ظاہری اسلوب استدلال کی بنا پر بعض مقامات پر شاذ رایوں کا ظہور بھی ہو گیا ہے۔
Flag Counter