Maktaba Wahhabi

63 - 385
گیاتھا او ر مہتمم صاحب کو شمس العلماء کا خطاب ملاتھا“ [1] اہل دیوبند کی سیاست سے لاتعلقی کی مزید وضاحت ملاحظہ ہو : ”دیوبند کا مدرسہ شمس العلماء حافظ محمد احمد پسر مولانا محمد قاسم بانی مدرسہ کےمحتاط انتظام میں ماضی کے بہت سے برسوں سے سیاست سے بالکل پاک وصاف رہاتھا، اورا س کے مدرسوں اور معلموں نے جدید سیاست یا امور خارجہ میں نہایت خفیف دلچسپی لی تھی یا مطلق دلچسپی نہ لی تھی، عبیداللہ کی آمد سے اورا س کے اثر سے مدرسے کا رنگ بدلنا شروع ہوگیا۔ [2] مذکورہ بالااقتباسات سے پوری طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل دیوبند کی سیاسی تحریک میں دلچسپی مولانا عبیداللہ سندھی کے زمانہ تدریس سے شروع ہوتی ہے، اور اسی سیاسی تگ ودو کی بناء پر مولانا کادارالعلوم دیوبند سے اخراج ہوجاتاہے ۔ لیکن انہوں نے مولانا محمود الحسن صاحب کو اپنا ہم نوا بنالیاتھا۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے، وہ یہ کہ جس سیاسی تحریک کامولانا کے عہد سے آغاز ہواتھا وہ کس کی نوعیت کی تھی؟ حقیقتاً اس تحریک کا مقصد خالص اسلامی حکومت کاقیام نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد امگریزی حکومت کی بجائے ایک قومی حکومت کا قیام تھا، جس کی بنیاد محض وطن پرستی پر قائم تھی [3]اس سلسلے میں تفصیل
Flag Counter