Maktaba Wahhabi

7 - 156
گفتنی و نا گفتنی مولانا محمد اسماعیل السّلفی تا دم واپسیں جمعیت اہل حدیث کے صدر رہے۔ آپ نے فروری 1968ء میں داعی اجل کو لبیک کہا اور عالم جاوداں کی طرف کوچ کر گئے رحمہ اللّٰه تعالیٰ و ارضاء و جعل الجنۃ ماواہ۔ ان کے سانحہ ارتحال کے بعد جمعیت اہل حدیث تشتت وافتراق کا شکار ہوگئی۔ جمعیت کو جب بھی متحدکرنے کی کوشش کی گئی وہ سعی ناتمام ثابت ہوئی اور خلیج خلیج مزید وسعت اختیار کرتی گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ جب احزاب کا تصادم ہو تو شخصی اہداف ابھرتےہیں اور اجتماعی مقاصد پس پشت ڈال دئیے جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں محسنین کو طاق نسیان کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ ان احوال کا منطقی نتیجہ تھا کہ مولانا موصوف کی حیات و خدمات کو محفوظ کرنے کی جماعت نے کوئی کوشش نہ کی اور یہ مسئلہ تعویق کا شکار رہا۔ اولاد و احفاد نے جو کوششیں کیں وہ بھی بارآور نہ ہو سکیں۔ امر حقیقی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لکل اجل کتاب کے اصول کے مطابق ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ جب وہ وقت آپہنچتاہے تو سارے اسباب مہیا ہو جاتے ہیں۔ یوم ازل سے ہی یہ اعزاز سیدہ سعدیہ ارشد (زادھا اللّٰه عزا و شرفاً) کو حاصل ہونا تھا۔ سیدہ کا سال پیدائش وہی ہے جو جناب مولانا سلفی رحمہ اللہ کا سال ارتحال ہے۔ موصوفہ نے ان کو دیکھا نہ استفادہ کیا مگر جو کام باوسیلہ لوگ نہ کر سکے اللہ تعالیٰ نے ایک ناتوان کے ہاتھوں سے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ذلک فضل اللّٰه یئوتیہ من یشاء و اللّٰه ذوالفضل العظیم۔ سیدہ کے دادا جان جناب ملک اشرف خان صاحب مرحوم و مغفور ایک تاجر تھے۔ ذہنی طور پر دیندار اور متقی تھے۔ یہ اس ذہنی رجحان کا ہی نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنے سعادت مندبیٹوں حافظ محمد ارشد صاحب اور حافظ امجد صاحب کو قرآن مجید حفظ کرایا۔ جناب حافظ محمد ارشد صاحب ان دنوں گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے پرنسپل ہیں اور حافظ محمد امجد صاحب کامیاب ایڈووکیٹ ہیں۔ اس بات کو قسام ازل کی حسن تدبیر کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ ملک اشرف خان
Flag Counter