Maktaba Wahhabi

105 - 131
زنیرہ رضی اللہ عنہا ، نہدیہ رضی اللہ عنہا ان کی صاحبزادی اور ام عبیس، یہ سب باندیاں تھیں۔ اِنھوں نے اسلام قبول کیا اور مشرکین کے ہاتھوں اسی طرح کی سنگین سزاؤں سے دو چار ہوئیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اِن باندیوں کو بھی خرید کرآزاد کردیا۔[1] مشرکین نے ایذا رسانی کی ایک شکل یہ بھی اختیار کی تھی کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو وہ اونٹ اور گائے کی کچی کھال میں لپیٹ کر دھوپ میں ڈال دیتے تھے۔ اور بعض کو لوہے کی زرہ پہنا کر جلتے ہوئے پتھر پر لٹا دیتے تھے۔[2] ایسے سنگین حالات میں مسلمانوں کے لیے مکہ میں رہنا دو بھر ہوگیا۔ انھیں ان پیہم ستم رسانیوں سے نجات کا راستہ تلاش کرنا پڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ شاہِ حبشہ نجاشی ایک عادل بادشاہ ہے۔ اُس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ بہترہو اگر آپ حبشہ چلے جائیں وہاں جو بادشاہ حکومت کرتا ہے اس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ یوں نبوت کے پانچویں برس رجب کے مہینے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پہلے گروہ نے ہجرتِ حبشہ کی۔ اس مقدس گروہ میں بارہ حضرات اورچار خواتین شامل تھیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان کے امیر تھے۔ اُن کی اہلیہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ہمراہ تھیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن دونوں میاں بیوی کے متعلق فرمایا کہ ابراہیم اور لوط علیہما السلام کے بعد یہ پہلا گھرانا ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔‘‘ [3] عہدِ نبوی میں جوشخص حبشہ کا نجاشی تھااس کا نام اصحمہ بن ابجر تھا۔ اس کے متعلق ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ حبشہ کا بادشاہ بننے سے پہلے بدر کے نواحی علاقے
Flag Counter