Maktaba Wahhabi

195 - 244
بیان کیا گیا ہے کہ جنگوں کے علاوہ حالت امن میں اس نے ایک لاکھ 25 ہزار آدمی قتل کئے تھے ۔[1] بڑے بڑے اکابروابرارمثلاسعیدبن جبیر وغیرہ کی گردنیں اڑا دیں۔ مدینہ میں بے شمار صحابہ کے ہاتھوں پرسیسے کی مہریں لگا دیں۔ حضرت عبداللہ بن الزبیر اور حضرت عبداللہ بن عمر رضوان اللہ تعالیٰ عنہماجیسے جلیل القدر صحابیوں کو قتل کیا۔ موجود زمانے کی استعماری سیاست کی طرح اس کا بھی اصول یہ تھا۔ حکومت کے قیام کے لئے ہر بات جائز ہے اور حکومتیں رحم و عدل سے نہیں بلکہ قہروتعزیرسے قائم ہوتی ہیں۔ اس عہد کے عرفاء و صلحاء حجاج کو اللہ کا قہر و عذاب خیال کرتے تھے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے۔ حجاج اللہ کا عذاب ہے، اسے اپنے ہاتھوں سے دور نہ کرو، بلکہ خداسے تضرع و زاری کرو کیونکہ اس نے فرمایا ہے : وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ ۔ یہی سبب ہے کہ جوں ہی اس کی موت کی خبرسنی گئی۔ حضرت حسن بصری رحمۃا للہ علیہ اور عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سجدے میں گر پڑے "اس امت کا فرعون مرگیا۔ "بے اختیار ان کی زبانوں سے نکل گیا۔ ‘‘ اب دیکھنا چاہیے اس جابر و قہرمان انسان نے موت کا مقابلہ کیوں کر کیا؟جس گھاٹ ہزاروں مخلوق کو اپنے ہاتھوں اتار چکا تھا، خود
Flag Counter