Maktaba Wahhabi

82 - 621
جب کہ علامہ طبری اور ابن عساکر کا کہنا ہے : ’’ابن سبا اہل صنعاء کا یہودی تھا۔‘‘[1] اور ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ ابن سبا جس کی طرف سبائی تحریک منسوب کی جاتی ہے ؛ یہ اہل یمن کے غالی قسم کے شیعوں میں سے تھا۔‘‘[2] اور میری (مصنف کی) نظر میں زیادہ راجح رائے یہ ہے کہ ابن سبا اہل یمن میں سے تھا۔ اس لیے کہ بہت سارے علماء اس کا علاقہ یمن ہی کو قرار دیتے ہیں۔ اگر ہم ان سابقہ اقوال میں غور کریں گے توپتہ چلے گا کہ اس قول میں اور ابن سبا کے قبیلہ حمیر کی طرف ؛ اور دوسرے قول میں قبیلہ ہمدان کی طرف اس کی نسبت ہونے میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ دونوں یمنی قبیلے ہیں۔ اور ابن سبا کے یمنی ہونے میں خطیب بغدادی کے علاوہ کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے اسے حیرہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ اور ان کے ساتھ ابن کثیرنے اختلاف کرتے ہوئے اسے روم کی طرف منسوب کیاہے۔ خطیب بغدادی کو ابن سوداء اور ابن سبا میں مغالطہ ہوگیا ہے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ دو شخص ہیں۔ وہ کہتے ہیں : ’’ شعبی نے ذکر کیا ہے کہ عبد اللہ بن سوداء سبائیت کی مدد کرتا تھا؛ (پھروہ اس کے بارے میں اور اس کے حضرت علی کے بارے میں مقالات نقل کرتے ہیں۔ )یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں : ’’ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابن سبا کے قتل سے اور ابن سوداء کے قتل سے فتنہ کا خوف محسوس ہوا جس کا اندیشہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو تھا؛ توانہوں نے ان دونوں کو مدائن کی طرف جلاوطن کردیا۔ وہاں پر لوگ ان دونوں کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہوئے۔[3] اور جس نے یہ کہا ہے کہ عبد اللہ بن سوداء اہل حیرہ میں سے تھا ؛ انہوں نے ابن سبا کا ذکر ہی نہیں کیا۔ اس لیے ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ ہم واضح طور پر کہہ سکیں کہ بغدادی نے اس مشہور ابن سبا کو جس کا تذکرہ ’’فِرق ‘‘ کی کتابوں میں ملتا ہے، اور جو سبائیت کا مؤسس ہے، اسے حیرہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ شاید کہ ان کی مراد کوئی اور شخص ہو۔ جو چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ ان کا مقصود عبد اللہ بن سبا کے علاوہ کوئی دوسرا شخص تھا، وہ یہ ہے کہ: وہ عبد اللہ بن سوداء کے متعلق لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ :’’ وہ سبائیت کے عقیدہ پران کی تائید کرتا تھا۔‘‘ تو یہ اس بات کی دلیل ہوئی کہ یہ ابن سبا سبائیت کے موجد کے علاوہ کوئی اور ہے۔ رہا مسئلہ ابن کثیر رحمہ اللہ کا موقف ؛ ہمارے علم کے مطابق علماء میں سے کسی ایک نے بھی ابن سبا کو روم کی طرف
Flag Counter