Maktaba Wahhabi

60 - 621
کرے۔ ہرٹلز صیہونی تحریک کا لیڈر ؛ اس وقت اس وفد کی سربراہی کررہا تھا جوسلطان عبد الحمید سے ملنے اور اس کے سامنے اپنے مطالبات پیش کرنے گیا۔ اوراپنے مطالبات پیش کیے، اور ساتھ ہی ان کے مقابلہ میں بہت بڑی مالی پیش کش کی لیکن سلطان عبد الحمید رحمہ اللہ نے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے ان سے کہا : ’’ جب میری حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی تو اس دن تم اسے بغیر قیمت کے لے لینا ؛ لیکن جب تک میں زندہ ہوں، اگر میرے بدن کے ٹکڑے بھی کردیے جائیں تو یہ میرے لیے اس بات سے آسان ہوگا کہ فلسطین کو میری خلافت سے علیحدہ کرلیا جائے ؛ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔‘‘[1] اس وقت یہودیوں نے سلطان عبد الحمید کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کیا کہ سلطان نظام ِ حکومت چلانے کے قابل نہیں ہے۔ یہودیوں کی خفیہ تنظیمیں مسلسل اپنے کام میں لگی رہیں، اور یہ سارے لوگ مل کر سازشوں کا جال بنتے اور خلافت کے خاتمہ کے لیے سازشیں کرتے رہے یہاں تک کہ وہ اس بات پر قادر ہوگئے کہ سلطان عبد الحمید ثانی کو (مارچ ۱۹۰۹ء میں ) ان کے منصب سے معزول کرسکیں۔ اور ان کی جگہ سلطان محمد خامس[2] کو علامتی طور پر خلیفہ بنادیا گیا۔[3] جب یہودی سلطان عبد الحمیدکو معزول کرنے میں کامیاب ہوگئے جو کہ ماسونی پلاننگ اور ان کے مقاصد کے سامنے ایک سخت دیوار تھا؛ تو انہوں نے مصطفی کمال اتاترک کی تعریفیں بیان کرنا شروع کردیں۔ یہ کہ سلطان عبد الحمید کے بعد حکومتی باگ دوڑ سنبھالنے کے لیے بہترین آدمی ہے۔ جب فضا ء اتاترک کے حق میں ہموار ہوگئی اور وہ بابائے ترک بن گیا تو اس نے ترتیب وار یہودی پلاننگ کے نفاذ اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے لیے کام شروع کردیا۔ یکم نومبر ۱۹۲۲ء کو اتاترک نے سلطنت کا خاتمہ کردیا، اور خلافت کو باقی رکھا۔ ۱۸ نومبر ۱۹۲۲ء کو وحید الدین محمد السادس[4] کو معزول کردیا۔ اگست ۱۹۲۳ء میں ’’عوامی جمہوری پارٹی ‘‘ کی بنیاد رکھی جس کے زیادہ تر نواب اور ذمہ دار ڈونمی اور ماسونی یہودی تھے۔ ۲۰ اکتوبر ۱۹۲۳ء کو ترک جمہوریہ کا اعلان کیا گیا، جس کا صدر مصطفی کمال کو چنا گیا۔ ۲مارچ ۱۹۲۴ء کو خلافت کو بھی ختم کردیا گیا جو ایک زمانے سے اسلام دشمنوں کے سینہ میں ایک خنجر کی طرح چبھ رہی تھی۔[5]
Flag Counter