Maktaba Wahhabi

363 - 621
فصل: ثامارا کا قصہ ہے۔ ‘‘[1] اس سے واضح ہوتاہے کہ یہودیوں کااپنی کتابوں میں تحریف کرنے کاسبب ملک ہے؛ عبرانیوں کا خیال ہے کہ بادشاہی حضرت داؤد علیہ السلام کی اولاد سے باہرنہیں جا سکتی۔ اس وجہ سے انہوں نے وہ نصوص گھڑی جن میں آل داؤد میں ملک کے ہمیشہ رہنے کی دعوت تھی۔ اوریہ کہ حکومت کبھی بھی آل ِ داؤد سے باہر نہیں جاسکتی۔ جب کہ ہارونیوں کا خیال ہے کہ بادشاہی ہمیشہ ہارون کی اولاد میں رہے گی۔ اور ان سے کبھی باہر نہیں جائے گی۔ اس وجہ سے عزرا (جو کہ ہارونی تھا) نے وہ نصوص گھڑی جن میں حضرت داؤد علیہ السلام کی ذات اور ان کے نسب میں طعن تھا؛ جس سے مقصود ان کی نسل کو تختہ حکومت سے محروم کرنا تھا۔ رافضہ : جب کہ رافضہ کا قرآن میں تحریف کرنے کا سبب امامت تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ان کے ہاں امامت اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ؛ اور دین کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ جیسا کہ کافی میں ابو زرارہ سے روایت ہے انہوں نے ابو جعفر سے نقل کیا ہے، انہوں نے کہا ہے : ’’ اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر ہے : نماز، زکواۃ، روزہ، حج، ولایت۔ زرارہ کہتے ہیں : میں نے کہا : ان میں سے کون سی چیز افضل ہے ؟فرمایا: ’’ ولایت۔‘‘ [2] جب امامت نماز اور زکوٰۃ کی منزلت پر؛ بلکہ ان دونوں سے بھی افضل ہے؛ تو پھر امامت کا قرآن میں کیوں نہیں بیان کیا گیا ؟جیسا کہ نمازاور زکواۃ کئی مواقع پر بیان کیے گئے ہیں۔ جو کہ رافضہ کے ہاں امامت سے کم اہمیت رکھتے ہیں۔ تو اس سوال کا جواب رافضیوں کے ہاں تحریفِ قرآن سے تھا اور یہ کہ امامت کا ذکر قرآن میں سینکڑوں بار آیا تھا؛ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت منصوص ہے، مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان آیات کوقرآن سے نکال دیا تاکہ وہ حکومت حاصل کرسکیں۔ کافی میں آیا ہے ابو الحسن علیہ السلام سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : ’’ولایت علی کے بارے میں تمام انبیاء کے صحیفوں میں لکھا ہوا ہے اوراللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور علی کی وصیت دے کر۔‘‘[3] عیاشی نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں : ’’ اگر قرآن کو ایسے ہی پڑھا جائے جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں ہمارے نام لیے گئے ہیں۔‘‘[4]
Flag Counter