Maktaba Wahhabi

326 - 621
تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ اس رواق ( GALLERY ) کی بلندی ایک سو بیس ہاتھ ہو۔ آدم کلارک (یہودی محقق اور تورات کا مفسر)نے دوسری جلد میں اس کی تفسیر میں اعتراف کیا ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اور سریانی اور عربی مترجمین نے اس میں تحریف کی، انہوں نے سو کو ختم کردیا ؛ اور کہنے لگے : ’’اس کی بلندی تیس ہاتھ تھی۔‘‘ [1] تیسری مثال: سفر قضاۃ (قاضیوں کا سفر ) میں آیا ہے: ’’ بیت لحم میں ایک نوجوان یہوذا تھا، وہ یہوذا قبیلہ سے تھا، وہ اصل میں ’’لاوی‘‘ تھا، جو وہاں پر اجنبی تھا۔‘‘[2] اس کا یہ کہنا کہ وہ ’’ لاوی تھا۔‘‘ غلط ہے، اس لیے کہ جو کوئی قبیلہ یہوذا سے ہو وہ لاوی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ قبیلہ یہوذا ’’یہوذا اور بنیا مین‘‘ کی اولاد سے مل کربنتا ہے۔ اس کلمہ میں باقی گروہ داخل نہیں ہوتے، جیسا کہ ان کی کتابوں میں وضاحت موجود ہے۔ قاموس الکتاب المقدس میں کلمہ ’’یہود‘‘ کے معانی بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے : ’’ اس کلمہ کا اطلاق یہوذا اور بنیامین کی اولاد میں ان لوگوں پر ہوتاہے جو باقی دس گروہوں کے علیحدہ ہونے کے بعد آپس میں متحد ہوگئے تھے۔‘‘ [3] چوتھی مثال : سفر اخبار ایام دوم میں آیا ہے ’’یہویاقیم جب بادشاہ بنا تو اس کی عمر پچیس سال تھی۔ اور اس نے یروشلم میں اکیس سال تک حکومت کی۔ اس نے رب الٰہ کی آنکھوں کے سامنے برائیاں کیں۔ اس وجہ سے بابل کا بادشاہ بخت نصر اس پر چڑھ دوڑا، اور اسے پیتل کی زنجیروں میں قید کر لیا تاکہ اسے بابل لے جائے۔‘‘ [4] علامہ رحمت اللہ ہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ بالکل غلط ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ (بخت نصر نے )اسے قتل کردیا تھا؛ اور حکم دیا تھا کہ اس کا جثہ دیوار شہر سے باہر پھینک دیا جائے، اوراسے دفن کرنے سے منع کردیا۔‘‘ اس پرانہوں نے ان کے مؤرخ ’’بوسیفوس‘‘ کی ذکر کردہ روایات سے استدلال کیا ہے، وہ کہتا ہے: ’’بابل کا بادشاہ ایک مضبوط لشکر لے کر آیا اور بغیر کسی جنگ کے شہر فتح کرلیا۔ وہ شہر میں داخل ہوا اور یہویاقیم کو قتل کردیا۔ اور اس کی لاش کو شہر پناہ کی دیوار کے باہر پھینک دیا۔ اس کی جگہ اس کے بیٹے ’’بواخین‘‘ کوتخت پر بٹھایا۔ اور تین ہزار مردوں کو قیدی بنالیا۔ حزقیال رسول بھی انہی قیدیوں میں سے تھے۔‘‘[5]
Flag Counter