Maktaba Wahhabi

158 - 621
کی اس نیام میں ہے۔ ‘‘ پھر آپ نے ایک تحریر نکالی، اس میں لکھا ہوا تھا : ’’ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے، جو کوئی غیر اللہ کے لیے ذبح کرے۔ ‘‘[1] اور وہ قوی دلائل جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عدم ِ وصی ہونے پر دلالت کرتے ہیں، ان میں سے ایک صحیح بخاری کی روایت ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے : ’’حضر ت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے باہر آئے؛ یہ اس مرض کا واقعہ ہے میں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا ؛ لوگوں نے کہا: اے ابو الحسن ! آج صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ انہوں نے کہا : ’’ الحمد للہ ! آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہے۔ پھر حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : ’’ خدا کی قسم تین دن کے بعد تم غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاؤ گے ؛ اور اللہ کی قسم ! مجھے ایسے آثار نظر آرہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض سے صحت یاب نہیں ہوسکیں گے۔ موت کے وقت مجھے بنو مطلب کے چہروں کی خوب شناخت ہے۔ اب ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدخلافت کس کو ملے گی ؟ اگر ہم اس کے مستحق ہیں، تو ہمیں معلوم ہوجائے گا اور اگر کوئی دوسرا مستحق ہے تو بھی معلوم ہوجائے گا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ممکن ہے ہمارے متعلق اپنے خلیفہ کو کچھ وصیتیں کردیں۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ اللہ کی قسم ! اگر ہم نے اس وقت آپ سے اس کے متعلق پوچھ لیا اورآپ نے انکار کردیا ؛ توپھر لوگ ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سے محروم کردیں گے۔ میں تو ہر گز اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی نہیں پوچھوں گا۔ ‘‘[2] ڈاکٹر علی بن ناصر الفقیہی کہتے ہیں : ’’ کیا یہ نص رافضہ کے جھوٹ پر رد کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت کی وصیت کی تھی۔ ‘‘ [اس میں رافضہ کاجھوٹ کئی باتوں سے ظاہر ہے ] اول:… خلافت کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ سے سوال کرنے سے رک جانا۔ دوم:… یہ واقعہ اس دن کا ہے جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ سوم:… اگر ایسی کوئی نص اس سے پہلے ہوتی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہہ دیتے کہ میں ایسی
Flag Counter