Maktaba Wahhabi

153 - 621
ہوئے اور فرمایا:’’ اے کمزور یقین والے ! اب عشاء کی آذان دو۔‘‘[1] اس عقیدہ میں یہودیوں اور رافضیوں میں مشابہت کوئی اچھنبے کی[نئی] بات نہیں ہے کہ ان دونوں کے درمیان بہت بڑا اتفاق و اتحاد ہو۔ سوعبد اللہ بن سبا نے ہی رافضی مذہب ایجاد کیا اور اس کی بنیاد رکھی؛ اور اس کی طرف دعوت دی اورجو کمزور ایمان والے لوگ اس کے دھوکے میں آ گئے، ان میں یہ عقائد پھیلانے لگا۔ ابن سبا پہلا آدمی تھا جس نے اس عقیدہ کو اچھالا، اور یہ گمان کرنے لگا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں۔ ابن سبا نے خود اس کی صراحت کی ہے کہ اس نے یہ عقیدہ کسی اسلامی مصدر سے نہیں لیا بلکہ تورات سے لیا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ’’ ابن سبا نے سب سے پہلے اسلام میں عقیدہ وصیت کی بدعت پیدا کی۔ اورجب وہ یہودی تھا تب بھی وہ اس عقیدہ کا یشوع بن نون کے لیے پر چارکیا کرتا تھا۔‘‘ امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’عبداللہ بن سبا اہل صنعاء کایہودی تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اسلام کا اظہار کیا، اور پھر لوگوں کو گمراہ کرتے ہوئے شہروں میں گھومنے لگا، … پھر کہنے لگا : ایک ہزار نبی تھے، اور ہر نبی کے لیے ایک وصی ہوا کرتا تھا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں۔ پھر کہنے لگا: ’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں، اور علی رضی اللہ عنہ خاتم الاوصیاء۔ پھر اس کے بعد کہنے لگا : اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو نافذ نہ کرے، اور علی رضی اللہ عنہ پر ظلم کرتے ہوئے امت کا معاملہ ان کے ہاتھ سے چھین لے۔ ‘‘[2] خطیب بغدادی نے امام شعبی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے: ’’ عبد اللہ بن سبا نے اہل ِ کوفہ سے بیان کیا : ’’اس نے تورات میں پایا ہے کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے ؛ اور یقینا علی رضی اللہ عنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں۔ اور آپ تمام اوصیاء میں سب سے بہتر ہیں، جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء میں سب سے افضل ہیں۔ ‘‘[3]
Flag Counter