Maktaba Wahhabi

116 - 621
اور اس کا مرجع یہودی ہونا اس کے ایرانی المرجع ہونے سے زیادہ اقرب ہے۔ ‘‘[1] ۳۔ گولڈ ٹسیہر : ( ۱۹۲۱ م): [2] اس نے ابن سبا کے وجودکو ثابت کیا ہے، اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ : ’’ حضرت علی کی الوہیت میں غرق ہونے والا، اور ان کی شان میں غلو کرنے کا عقیدہ عبد اللہ بن سبا کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اس کے کلام کی نص یہ ہے : ’’بے شک مہدیت کی فکر، جس کی وجہ سے امامت کا نظریہ نکلا؛ اور جس کی نشانیاں ’’رجعت ‘‘ (کے عقیدہ)میں ظاہر ہوتی ہیں ؛ مناسب ہے کہ ہم ان سب پر نظر ثانی کریں ؛ اس لیے کہ ہم دیکھتے ہیں : یہ یہودی اور نصرانی موثرات میں سے ہے، جیسا کہ ’’حضرت علی کی الوہیت میں غرق ‘‘( ہونے)کا عقیدہ ابتدا میں عبد اللہ بن سبا نے گھڑا تھا ؛ ایک ایسی سوسائٹی میں نئی طرح پیش کیا گیا جو بالکل پاک و صاف سوسائٹی تھی؛ اور جس میں ابھی تک یہ آراء و افکار نہیں پہنچے تھے۔‘‘ [3] ۴۔ رینولڈ نکلس: ( ۱۹۴۵ م ): [4] یہ اپنی کتاب ’’تاریخ الأدب العربی ‘‘ میں کہتا ہے : ’’ عبد اللہ بن سبا جس نے سبائی گروہ کی بنیاد رکھی؛ یمن کے رہنے والوں میں سے تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ یہودی تھا۔ عثمان کے زمانہ میں اسلام لایا؛ اور اپنی دعوت پھیلاتے ہوئے شہروں میں گھومنے لگا …‘‘[5] اور (عقیدہ ابن سبا ) کے عنوان میں لکھتا ہے : ’’وہ کہا کرتا تھا :حقیقت میں یہ بہت ہی عجیب بات ہے کہ جو بھی انسان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس دنیا کی زندگی میں لوٹ کر آنے کا عقیدہ رکھتا ہو ؛ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لوٹ کر آنے کا عقیدہ نہ رکھے جس کی نص قرآن میں موجود ہے۔ چہ جائے کہ ہزار نبیوں کے ہزار وصی ہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وصی علی ہے۔ محمد آخر الأنبیاء ہے، اور علی آخر الاوصیاء ہے۔ ‘‘[6]
Flag Counter