Maktaba Wahhabi

40 - 54
آچکا تھا۔دوسری جگہ ارشاد باری ہے: {وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعْرَضَ عَنْہَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ}(الکہف:۵۷) ’’کہ اور اس سے زیادہ ظالم کون جس کو سمجھایا اس کے رب کے کلام سے پھر اُس نے منہ پھیرلیا اس کی طرف سے اور بھول گیا جو کچھ آگے بھیج چکے اس کے ہاتھ۔‘‘ گویا بھول کر بھی نہیں سوچا کہ وہ اس راہ دنیا سے اپنی منزل آخرت کے لیے کیا کچھ روانہ کر رہا ہے۔وہ دنیا سے دل لگا بیٹھا آخرت کو بالکل بھلا بیٹھا۔دنیا کو راہ نہ جانا ابدی گھر جانا۔دنیا بنانے میں جان کھپائی۔آخرت بنانے سے جان چرائی۔یہاں کے آرام کو مقصد سمجھا وہاں کے آرام کو پس پشت ڈالا۔گویا اپنے ہاتھ سے اپنی تباہی کا گڑھا کھودا۔اپنے خالق کو ناراض کیا اور چلتے راستہ عذاب مول لیا۔جیسا کہ فرمایا: {لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنْفُسُہُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَ فِی الْعَذَابِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ}(المائدہ:۸۰) ’’کہ کیا ہی برا سامان بھیجا انھوں نے اپنے واسطے وہ یہ کہ اللہ کا غضب ہے اُن پر اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہنے والے ہیں۔‘‘ ان کے لیے تو زیبا تھا کہ دنیا کو اپنی ترقی کا زینہ جانتے۔آخرت کی راحت و آسائش کو اس کا پہلا قدم سمجھتے اور اپنی ان تھک کوششوں سے آخرت یہیں سے سنوارتے۔وہاں کی مسرتوں کی بنیاد دنیا ہی میں رکھتے۔خود بھی خوش رہتے اپنے خالق کو بھی خوش رکھتے اور عذاب الٰہی سے دامن بچالیتے۔مگر ان کو تو سب سے بڑا دھوکا لگا کہ انھوں نے دنیا کو آخرت کے رنگ میں دیکھا یعنی بجائے آخرت کے دنیا بنانے میں لگ گئے اور اسی کو قدیم و دائم سمجھ بیٹھے۔دنیا کی طرف منہ کیا اور آخرت کو پشت دی۔دنیا ان کی نظر پر چڑھی اور آخرت ان کی نظر سے گری۔خواہش کے بندے ہوئے خدا کی بندگی سے نکلے۔فانی پر مٹے باقی سے بھٹکے۔
Flag Counter