Maktaba Wahhabi

50 - 54
اس وقت کو اُس مجبوری کے وقت کی درستی میں لگا جبکہ تو بوڑھے سے زیادہ مجبور ہوگا۔عمل تیری قدرت سے باہر ہوگا۔بس اگر یہی تیری فکر ہو نظر تیری آخرت پر جمی ہو تو صحیح معنی میں تیز نظر ہے عقلمند اور ہوشیار ہے ورنہ تو وہی ناسمجھ جوان ہے جو جتنا کماتا ہے اتنا ہی کھالیتا ہے اور بڑھاپے میں روٹیوں کو ترستا ہے دوسروں کی ٹھوکروں پر جیتا ہے تو وہ بڑھاپے میں اپنے کیے پر روتا ہے اور تو مرنے کے بعد اپنے کیے پر روئے گا بس چند دن کا فرق ہے۔بڑھاپا تو پھر بھی کٹ جائے گا اچھا ہو یا برا گزر جائے گا مگر موت کے بعد تو پچھتایا تو کدھر جائے گا۔ دین اور دنیا کی ایک ہی پکار: اے دنیا کے پرستار مال کی محبت کے شکار آج تو اس دور میں کھڑا ہے جبکہ ہر نفس اپنے بھلے میں لگا ہے۔کوئی کسی کا ساتھی نہیں کوئی کسی کا یار نہیں۔بس دولت کے لیے جینا ہے اور اسی کے پیچھے دم دیتا ہے۔اچھے برے کا تمیز نہیں۔حرام حلال کا دھیان نہیں۔دولت اندوزی میں بس ایک دوڑ ہے اور اسی کی ہار جیت پر دین و مذہب و مروت و ہمدردی غرض ہر چیز قربان ہے۔جب زمانہ کا یہ رنگ ہوا تو سودی لین دین رشوت خوری اور چور بازاری کا چرچا ہوا۔چوری۔ٹھگی،حرام خوری کا بازار گرم ہوا۔اُس نے اسے چوسا اس نے اُسے لوٹا ان راہوں سے پیسہ بڑھا تو چوری کا ڈر لگا۔بینک کھلے۔مالداروں نے دولت کے ڈھیر کے ڈھیر بینکوں میں بھرے اور سمجھے کہ اب امن چین سے بیٹھے مگر یہ نہ سمجھے کہ دنیا میں امن دین کے دامن میں ہے اور دین سے ہٹ جاؤ تو ہر ایک بے چین ہے۔اب پڑے چور میں مور دنیا میں مفت کے کون کام آتا ہے ہر ایک پہلے اپنا کام بناتا ہے۔بینک کے مہاجنوں کے پاس جب اس راہ سے دولت بے ٹھکانے جمع ہوئی تو ان کی رال ٹپکی۔انھوں نے تیرے میرے پیسے سے تجارت چھیڑی۔نہ کوڑی لگی نہ پھٹکری ہزاروں کے لاکھوں بنائے اور لاکھوں کے کڑوڑوں۔ادر ملک کے مالداروں اور ساہوکاروں پر حرص کا جال ڈالا اور اُن کے پیسہ پر فی سیکڑہ سود مقرر کیا۔پھر کیا تھا مالداروں نے حرام حلال کی کمائی میں اور قدم بڑھایا گویا ملک میں لوٹ مار اور بڑھی۔اس نے اُسے پچھاڑا اُس نے اسے بھموٹا اور دنیا ہوگئی بدامنی کا ایک اکھاڑا۔غریبوں
Flag Counter