Maktaba Wahhabi

36 - 54
کے اس مریض کے مانند ہوگا جس کو اگر گھڑے کے گھڑے پانی کے پلائے جائیں تب بھی ہائے پیاس ہائے پیاس پکارتا رہے گا یا اُس بیمار کی طرح ہوگا جس کو ’’جوع البقر‘‘ ہو کہ اگر غلہ کے انبار کے انبار اس کو کھلادیے جائیں تو بھوک بھوک کی صدائیں لگاتا رہے گا اور تسلی کسی صورت سے نہ پاسکے گا۔تیرے نبی اقدس کا صاف فرمان ہے جو محتاجوں کے لیے بشارت کا کھلا پیغام ہے۔ ((اِذَا اَحَبَّ اللّٰہُ عَبْدًا حَمَاہٗ الدُّنْیَا کَمَا یَظِلُّ اَحَدُکُمْ یَحْمِیْ سَقِیْمَہٗ الْمَائَ۔))(ترمذی:۲۰۳۶) ’’کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو اس کو دنیا سے بچاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بیمار کو پانی سے بچاتا ہے۔‘‘ دوسری جگہ ارشاد عالی ہے: ((اِنَّ ہٰذَا الْمَالَ حَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ فَمَنْ اَخَذَہٗ بِحَقِّہٖ وَوَضَعَہٗ فِیْ حَقِّہٖ فَنِعْمَ الْمَعُوْنَۃُ ہُوَ وَمَنْ اَخَذَہٗ بِغَیْرِ حَقِّہٖ کَانَ کَالَّذِیْ یَاْکُلُ وَلَا یَشْبَعُ وَیَکُوْنُ شَہِیْدًا عَلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔))(بخاری:۶۴۴۱) یعنی دنیا کا یہ مال سبز اور خوشگوار تروتازہ اور لذیذ ہے جو شخص اس کو جائزطریقہ پر حاصل کرلے اور جائز مصارف میں صرف کرے تو یہ مال بہترین مددگار ہے اور جو شخص اس کو ناجائز طریقہ پر حاصل کرے تو یہ مال اس کے حق میں اس شخص کے مانند ہوجاتا ہے جو کھانا کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا اور یہ مال قیامت کے دن اس کا شاہد ہوگا۔گویا مال انسان کے دل میں حرص کا بیج بوتا ہے صبر کو کھوتا ہے ہر وقت زیادتی کی فکر میں رکھتا ہے غرض اسی دھن میں زندگی کو برباد کرتا ہے دنیا کو بھی تلخ کرتا ہے اور آخرت کو بھی بدمزہ بناتا ہے۔ دنیا سے لگاؤ: اے آخرت کے راہی تجھے معلوم ہے کہ تیرے نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے اپنا لگاؤ کیسا رکھا۔جسم سے دنیا میں رہے دل آخرت میں رکھا۔دنیا سے کبھی دل نہ لگایا آخرت سے
Flag Counter