Maktaba Wahhabi

37 - 54
دل کبھی نہ ہٹایا۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بوریے پر سو کر اُٹھے تو جسم اطہر پر بوریے کے نشانات عیاں تھے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اگر آپ ہم کو حکم دیتے تو ہم آپ کے لیے نرم بستر بچھا دیتے اور آرام کا سامان مہیا کرتے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَالِیْ وَلِلدُّنْیَا وَمَا اَنَا وَالدُّنْیَا اِلَّا کَرَاکِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا۔))(ترمذی:۲۳۷۷) کہ مجھ کو دنیا سے کیا مطلب میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی سوار کسی درخت کے نیچے کھڑا ہوکر سایہ سے فائدہ اٹھالے اور پھر چل دے اور درخت کو اپنی جگہ چھوڑ جائے بس ہر انسان کو دنیا سے یہی لگاؤ ہو آخرت سے اس کا پورا رشتہ جڑا ہو۔وہیں کا سامان مہیا ہو۔یہاں کا سامان ہو یا نہ ہو۔دنیا یوں بھی ہاتھ سے جائے گی ایک دن قبضہ سے نکلے گی۔انسان خود نہیں چھوڑے گا تو اس سے چھڑائی جائے گی مرضی سے ہاتھ سے نہیں دے گا تو چھینی جائے گی۔مگر آخرت میں کیسی بنے گی وہاں کی کیسی نمڑے گی۔اگر وہاں بگڑگئی تو پھر نہیں سدھرے گی۔اگر سدھر گئی تو پھر نہیں بگڑے گی۔لہٰذا آخرت کو یہیں سے بنانا ہے۔دنیا ہی سے آخرت کو سدھارنا ہے۔ دنیا کو اُسی درخت کے مانند سمجھنا ہے جس کے نیچے راہ چلنے والا کھڑے کھڑے سستاتا ہے پھر چلتا بنتا ہے۔درخت اپنی جگہ کھڑا رہتا ہے۔سوچ اس دنیا سے کس کس نے فائدہ اٹھایا اور سب چل بسے آج اُن کا نام و نشان نہیں اُن کا پتہ اور علم ہیں۔اُسی طرح آج کل کے دنیا والے بھی اپنی اپنی راہ ختم کرکے آخرت کی جانب اپنی راہ لیں گے اور دنیا کو یاس و حسرت سے چھوڑتے نظر آئیں گے اس لیے مناسب ہے کہ دنیا ہی میں ہر انسان آنکھ کھولے اپنے مستقبل کو روشن کرے آنے والے خطرہ کو اپنے سر پر سے ٹالے۔اگر یہاں آنکھ نہ کھولے گا تو مرکر آنکھ کھولنی پڑے گی جبکہ سارا کیا سامنے آجائے گا۔اسی دن کے لیے ارشاد ہے:{یَوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْئُ مَا قَدَّمَتْ یَدَاہُ}(النساء:۴۰)یعنی جس دن کہ دیکھ
Flag Counter