Maktaba Wahhabi

41 - 54
زندگی کے چند دنوں کی فکر کی آخرت کے بے گنتی سالوں سے غفلت برتی۔آخر جب جان بدن سے نکلی آنکھ کھلی عقل آئی چونکے کہ یہ کیا ہوا کیا کیا۔کہاں سے آئے کیا لائے کھو آئے یا کمالائے۔سب چھوڑ آئے یا کچھ ساتھ لائے۔غرض انھیں سوالات میں ان کی عقل چرخ ہوگی اور کامیابی کی کوئی ترکیب بن نہ سکے گی۔ اسی سراسیمگی و پریشانی میں یہ کہہ کر اُن کو نادم و شرمندہ کیا جائے گا اور اُن کے کیے کرتوتوں پر رونے کا اُن کو موقع دیا جائے گا۔ {ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ o ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْکُمْ وَاَنَّ اللّٰہَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِo}(الانفال:۵۰،۵۱) کہ چکھو عذاب جلتی آگ کی شکل میں جو عذاب تم اپنے لیے دیکھ رہے ہو۔تمہاری ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہے اور ان اعمال کی پاداش ہے جو تمہارے اغطائے بدنی نے دنیا میں انجام دیے گویا یہ عذاب ہمارا دیا ہوا نہیں تمہارا بلایا ہوا ہے۔تمہارے اعمال آگ کی صورت میں تم پر مسلط ہیں اور تمہاری تاریک ماضی پر تم کو رلا رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتا اور بلاوجہ ان کو مصیبت میں نہیں ڈالتا۔لہٰذا اے دنیا کے مسافر اور آخرت کے راہی ذرا سوچ اور عقل سے کام لے تو دنیا میں اس لیے نہیں آیا کہ یہاں آکر یہیں کی بنائے اور دنیا کی اس راہ گزر پر بستر بچھا کر سورہے۔یہ سونے کی جگہ نہیں چلنے کی راہ ہے۔یہ ٹھہرنے کا مقام نہیں گزرجانے کا راستہ ہے۔جس طرح بے شمار انسان آئے اور گزر گئے تو بھی ایک روز اپنا راستہ طے کرکے گزر جائے گا پھر ہنسے گا یا روئے گا۔اپنے کیے پر خوش ہوگا یا پچھتائے گا۔دوزخ کا لقمہ بنے گا یا جنت کا دولہا ہوگا وہاں کچھ نہیں کرے گا جو کچھ کرے گا یہیں کرے گا وہاں صرف کیے کا بدلہ پائے گا۔اپنے عمل کے نتیجہ کو آنکھوں سے دیکھے گا۔بس خدارا دنیا کا ایک لمحہ رائیگاں نہ کہو۔دنیا کے ایک ایک پل میں تیری راحت مضمر ہے یا گلفت۔اس کی ایک ایک گھڑی تیری عاقبت کے بگاڑ کا پتہ دیتی ہے یا اس کے سدھار کا۔آخرت میں گو انسان مرنے کے بعد قدم رکھتا ہے مگر اس کے رنگ ڈھنگ اور اچھے برے کاموں کا یہیں دنیا سے
Flag Counter