مسئلہ 137 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ موت کے وقت طویل سفر اورقلت زاد سفر کے خوف سے رونے لگے۔ اَنَّ اَبَا ہُرَیْرَۃَ رضی اللّٰه عنہ بَکٰی فِیْ مَرْضِہٖ فَقِیْلَ مَا یُبْکِیْکَ؟ فَقَالَ اَمَّا اِنِّیْ لاَ اَبْکِیْ عَلٰی دُنْیَاکُمْ ہٰذِہٖ وَ لٰکِنْ اَبْکِیْ عَلٰی بُعْدِ سَفَرِیْ وَ قِلَّۃِ زَادِیْ وَ اِنِّیْ اَمْسَیْتُ فِیْ صَعُوْدٍ مُہْبَطَۃٍ عَلٰی جَنَّۃٍ وَ نَارٍ لاَ اَدْرِیْ عَلٰی اَیَّتِہِمَا یُوْخَذُنِیْ[1] حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے مرض الموت میں رونے لگے آپ سے پوچھا گیا کہ ’’کیوں رو رہے ہیں؟‘‘ فرمانے لگے ’’میں تمہاری اس دنیا (کو چھوڑنے کی ) وجہ سے نہیں رو تا بلکہ (آئندہ پیش آنے والے) طویل سفر اور قلت زاد سفرکی وجہ سے رو رہا ہوں ۔ میں نے ایسی بلندی پر شام کی ہے جس کے آگے جنت ہے یا جہنم اور میں نہیں جانتا ان دونوں میں سے میرا مقام کون سا ہوگا؟‘‘ مسئلہ138 قبر کی یاد نے حضرت مالک بن دینار رحمہ اللہ کو اس قدر رلایا کہ بے ہوش ہوگئے۔ قَالَ مَالِکُ بْنُ دِیْنَارٍ عَجَبًا لِّمَنْ یَعْلَمُ اَنَّ الْمَوْتَ مَصِیْرُہٗ ، وَالْقَبْرُ مَوْرِدُہٗ ،کَیْفَ تَقَرُّ بِالدُّنْیَا عَیْنُہٗ وَ کَیْفَ یَطِیْبُ فِیْہَا عَیْشُہٗ ؟ قَالَ ثُمَّ یَبْکِیْ مَالِکٌ حَتّٰی یَسْقُطَ مَغْشِیًّا عَلَیْہِ [2] حضرت مالک بن دینا ر رحمہ اللہ کہتے ہیں تعجب ہے اس شخص پر جو جانتا ہے کہ موت اس کا انجام ہے۔ قبر اس کا ٹھکانہ ہے (اس کے باوجود اسے اس دنیا میں قرار حاصل ہے اور وہ سکون کی زندگی بسر کررہا ہے) راوی کہتا ہے کہ حضرت مالک بن دینار رحمہ اللہ نے یہ کہا اور زار و قطار رونے لگے حتی کہ بے ہو ش ہوکر گر پڑے۔ |