تو گویا نماز عید سے پہلے اور بعد میں کسی بھی نماز کی ممانعت پر دلالت کرنے والی احادیث اور اس حدیث میں جمع تطبیق یہ ہوئی کہ ممانعت سے مراد عید گاہ میں ممانعت ہے، گھر آکر نفل پڑھنے میں کوئی ممانعت نہیں۔[1]
اذان و اقامت:
نماز عید کے لیے نہ تو کوئی اذان ہے نہ اقامت، جیسا کہ صحیحین میں حضرت ابن عباس اور جابر رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں:
(( لَمْ یَکُنْ یُؤَذَّنُ یَوْمَ الْفِطْرِ وَلاَ یَوْمَ الْاَضْحٰی )) [2]
’’عید الفطر اور عید الاضحی کے لیے اذان نہیں کہی جاتی تھی۔‘‘
نیز صحیح مسلم میں امام عطاء بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ عید الفطر کے لیے جب امام نکلے تو نہ عید سے پہلے کوئی اذان ہے نہ اقامت، نہ کوئی نداء و صدا اور نہ کوئی اور چیز اور نہ نماز میں سے کچھ نماز عید کے بعد ہے۔[3]
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عید گاہ پہنچتے تو بغیر اذان و اقامت کے نماز شروع کردیتے تھے۔ نیز ’’الصلوۃ جامعۃ‘‘ بھی نہیں کہا جاتا تھا، لہٰذا سنت یہی ہے کہ ایسا کچھ بھی نہ کیا جائے۔[4]
نماز عید کی رکعات:
نمازِ عید کی کل دو ہی رکعتیں ہیں۔ یہ تو معروف ہے اور متفق علیہ بات
|