دینے والوں کا ان کی قیمت کھانا بھی منع ہے جیسا کہ مسند احمد میں حدیث ہے:
(( وَلاَ تَبِیْعُوْا لُحُوْمُ الْھَدْيِ وَالْاَضَاحِيْ وَکُلُوْا وَ تَصَدَُّقُوْا وَاسْتَمْتَعُوْا بِجُلُوْدِھَا وَلاَ تَبِیْعُوْا )) [1]
’’حج کے موقع پر منٰی میں دی جانے والی اور عام قربانی کا گوشت مت بیچو بلکہ خود کھاؤ یا صدقہ کردو اور قربانی کے جانوروں کی کھالیں بھی مت بیچو (بلکہ وہ بھی صدقہ کردو یا پھر) اس سے خود فائدہ اٹھاؤ۔‘‘
6۔ اجرت میں کھالیں۔۔۔؟
بعض جگہوں پر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ عید کے موقع پر قربانی کی کھالیں امام مسجد کو دے دیتے ہیں حالانکہ اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو یہ امامت کا معاوضہ بن جاتی ہیں، جسے امامت کی اجرت بھی کہا جاسکتا ہے جو کھالوں کو بیچ کر ان کی قیمت کھانے والی بات ہے اور یہ مذکورہ حدیث کی رو سے منع ہے۔ ایسے لوگوں کو اور ایسے پیش امام حضرات کو اس پہلو پر غور کرناچاہیے۔ ہاں اگر امام صاحب اس قدر غریب ہیں کہ امامت کے معاوضے کے باوجود وہ صدقہ کے مستحق ہوں تو ایسی صورت میں ایسے امام مسجد کو قربانی کی کھال دی جاسکتی ہے۔ اب پیش امام کا اپنا فرض ہے کہ وہ ذمہ داری کا ثبوت دے اور اپنی مجموعی حیثیت کا اندازہ کرکے قربانی کی کھالوں کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ اپنے ایمان اور ضمیر سے لے۔
7۔ نماز عید کے بعد قربانی کرنا:
نماز عید سے پہلے قربانی کے جانور کو ذبح نہیں کرنا چاہیے اور اگر کسی نے قربانی کا جانور نماز عید سے قبل ہی ذبح کردیا تو وہ کھانے کا گوشت تو بن جائے گا مگر قربانی کے طور پر وہ قبول نہیں ہوگا کیونکہ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ نبی
|