میں اکٹھی ہوگئیں تو انھوں نے نماز عید کے لیے نکلنے میں اس قدر تاخیر کردی کہ سورج کافی چڑھ آیا، پھر وہ آئے اور خطبہ ارشاد فرمایا اور خطبہ سے فارغ ہوکر نماز عید پڑھائی۔ آگے وہ بیان کرتے ہیں:
(( وَلَمْ یُصَلِّ لِلنَّاسِ یَوْمَئِذِ نِ الْجُمُعَۃَ ))
’’اور اس دن لوگوں کونماز جمعہ نہیں پڑھائی۔‘‘
حضرت وہب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا (جو اس عید کے دن طائف میں تھے) تو انھوں نے فرمایا:
(( اَصَابَ السُّنَّۃَ )) [1] ’’انھوں نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عمل کیا۔‘‘
ان سب احادیث و آثار سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن عید آجائے تو نماز جمعہ کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے، جو پڑھنا چاہے پڑھ لے اور جو نہ پڑھے اسے بھی گناہ نہیں ہوگا کیونکہ اس کی رخصت دے دی گئی ہے۔ علامہ ابن قیم، امام صنعانی، امام شوکانی، نواب صدیق حسن خان، شیخ البانی اور دیگر اہل علم کا یہی مسلک ہے۔[2]
اصحابِ رخصت؟
کیا یہ رخصت سب کے لیے ہے؟ اس میں ائمہ و فقہاء کے مابین اختلاف پایا جاتاہے، مثلاً حنابلہ کے نزدیک جمعہ کی رخصت سب کے لیے ہے
|