Maktaba Wahhabi

101 - 200
رکھنا چاہیے اورمصافحہ سے منع کرنا چاہیے اور مصافحہ کرنے والوں کو زجر کرنا چاہیے جبکہ خلاف سنت کرنے لگے۔ اور ان کی اس تصریح سے اجماع معلوم ہوتا ہے، سو مخالفت جائز نہیں، بلکہ اتباع لازم ہے ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جب کھل چکی اس پر راہ کی بات، اور چلے خلاف سب مسلمانوں کی راہ سے، سو ہم اس کو حوالہ کریں گے جو اس نے پکڑے اور ڈالیں گے اس کو دوزخ میں، اور بہت بری جگہ پہنچا۔‘‘ اور اگر فقہاء اس مصافحہ کو صاف مکروہ نہ کہتے بلکہ فی نفسہ مباح ہوتا تو بھی ہم اس زمانہ میں کراہت کا حکم کرتے، اس لیے کہ لوگ اس پر جم گئے ہیں اور اسے سنت لازمہ جانتے ہیں کہ اس کا ترک کرنا جائز نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ ہم کو خبر پہنچی ہے کہ ایک شخص جو صاحب علم مشہور ہے کہتا ہے یہ مصافحہ اسلام کی نشانیوں میں سے ہے جو ایمان والا ہے اس کو کیوں چھوڑ سکتا ہے؟ اب اے انصاف والو! دیکھو تو جب خواص کا یہ اعتقاد ہو تو عوام کا کیا ہوگا؟ اور جو امر مباح اس نوبت کو پہنچ جاوے پھر وہ بھی مکروہ ہے۔‘‘ اور کہا حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اغاثۃ اللہفان میں: ’’اِنَّ الْعَمَلَ اِذَا جَرٰی عَلَی خِلاَفِ السُّنَّۃِ فَلاَ اعْتِبَارَ بِہٖ، وَ لاَ الْتِفَاتَ اِلَیْہِ، وَ قَدْ جَرَی الْعَمَلُ عَلَی خِلاَفِ السُّنَّۃِ مُنْذُ زَمَنٍ طَوِیْلٍ فَاِذَنْ لاَ بُدَّ لَکَ اَنْ تَکُوْنَ شَدِیْدَ التَوَقِّيْ مِنْ مُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ وَ إنِ اتَّفَقَ عَلَیْہِ الْجُمْہُوْرُ، وَ لاَ یَغُرُّنَّکَ إِطْبَاقُہُمْ مَا اُحْدِثَ بَعْدَ الصَّحَابَۃِ، بَلْ یَنْبَغِيْ لَکَ اَنْ تَکُوْنَ حَرِیْصًا عَلَی
Flag Counter