اشکال : اب یہاں یہ مسئلہ بھی ضمناً آجائے، کہ جس طرح یہ روایت صحیح مسلم میں ہے اسی طرح صحیح بخاری میں بھی ہے،[1]اب اصول یہ ہے کہ بخاری و مسلم کی تمام روایات محمول علی السماع ہیں، اب یہاں کیا کیا جائے؟ یہاں تو شعبہ رحمہ اللہ خود کہتے ہیں کہ میں امام قتادہ رحمہ اللہ سے نہیں پوچھ سکا ،تو یہ محمول علی السماع کیسے ہوگی؟ اب یہ اشکال ہے۔ اشکال کا جواب : اب آپ دیکھیں امام بخاری رحمہ اللہ نے کیا کیا ہے؟ اسی سے امام بخاری رحمہ اللہ کی مرتبت اور جلالت کا پتہ چلتا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو ذکر کرنے سے پہلے اسی مفہوم کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔ پھر یہ روایت ذکر کی ہے۔[2] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہےکہ امام بخاری رحمہ اللہ تدلیس کے حوالے سےاس بات کو سمجھتے تھے، اسی لئے انہوں نے بنیاد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پر رکھی، اور تائید میں انس رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی، لہذا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں تدلیس کا شائبہ تھا،ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت (شاہد )آنے کی وجہ سے ، وہ مورد الزام نہ رہی، لیکن مسلم رحمہ اللہ میں باقی رہی، اسی سے پتہ چلتا ہے کہ صحت کے حوالے سے جو احتیاط اور جو اہتمام امام بخاری رحمہ اللہ کا ہے وہ مسلم رحمہ اللہ کا نہیں، اور امام بخاری رحمہ اللہ امام مسلم رحمہ اللہ سے کہیں زیادہ فائق ہیں، اور اس کا اقرار تو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے۔ بہرحال شعبہ رحمہ اللہ جب روایت کرتے ہیں مدلسین سے تو ان کی روایت محمول علی السماع ہوتی ہے۔ |