رَسُولَ رَسُولِ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم))کہ اس ذات کی تعریف جس نے اللہ کے رسول کے سفیر کو حق بات کی توفیق عطا فرمائی۔‘‘[1]
جن آیات کا فہم وادراک عربی لغت پر موقوف ہوتا تھا وہاں اجتہاد سے کام لینے کی ضرورت نہ تھی۔اس لئے کہ صحابہ خالص عرب ہونے کی بنا پر عربوں کے اسالیبِ کلام سے بخوبی آشنا تھے۔جاہلیت کی شاعری میں بصیرت ومہارت رکھنے کے باعث وہ عربی الفاظ اور ان کے معانی سے پوری طرح آگاہ تھے۔سیدنا فاروق اعظم نے فرمایا تھا کہ جاہلی شاعری عربوں کا دیوان ہے۔[2]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں صحابہ کرام فہم قرآن کی ہر مشکل میں آپ کی طرف رجوع کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم سے یا خود وحی خفی(حدیث مبارکہ)کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمادیتے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام ان دو مصادر سے تفسیر نہ ملنے کی صورت میں ذاتی فہم واجتہاد سے کام لیتے تھے۔
صحابہ بکثرت اپنے اجتہاد کے بل بوتے پر تفسیر قرآن کیا کرتے تھے۔اس ضمن میں وہ درج ذیل وسائل پر اعتماد کرتے تھے:
1۔ عربی زبان کے اسرار واَوضاع کی پہچان
2۔ عربوں کے اخلاق وعادات سے آشنائی
3۔ نزولِ قرآن کے وقت جزیرۂ عرب میں یہود ونصاریٰ کے حالات سے آگاہی
4۔ قوتِ فہم ووسعتِ ادراک[3]
عربی زبان کے اسرار واوضاع کی معرفت ایسی آیات کے سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے جن کا فہم وادراک عربی زبان کی پہچان پر موقوف ہے۔اسی طرح جو آیات عربوں کے اخلاق وعادات سے متعلّق ہیں ان کا مفہوم سمجھنے کے لئے عربوں کے عادات واطور سے واقفیت ناگزیر ہے۔مثلاً آیت کریمہ:
﴿ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ﴾[4]
کہ پھر تم اس جگہ سے لوٹو(یعنی عرفات سے)جہاں سے سب لوگ لوٹتے ہیں۔
كا مفہوم اسی صورت میں سمجھا جا سکتا ہے جب نزول قرآن کے وقت عربوں کی عادات سے واقفیت حاصل کی جائے۔اسی طرح نزولِ قرآن کے وقت جزیرۂ عرب میں جو یہود ونصاریٰ موجود تھے ان کے احوال وکوائف سے آشنا ہونا اس لئے ضروری ہے کہ اس سے ان آیات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جن میں اہلِ کتاب کے اقوال واعمال پر تنقید کی گئی ہے۔مثلاً آیتِ کریمہ:
﴿ثُمَّ أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ
|