صحابہ کرام ان کے فہم وادراک میں بھی یکساں مرتبہ کے حامل نہ تھے۔اور اس میں حرج بھی نہیں کیونکہ کسی شخص نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ اُمت کا ہر فرد اپنی زبان کے تمام مفردات سے واقف ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ(23ھ)سے مروی ہے کہ آپ نے منبر پر یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی:﴿أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ﴾پھر پوچھنے لگے کہ ’تخوف‘ کا معنیٰ کیا ہے؟ قبیلہ ہذیل کے ایک شخص نے کہا کہ ہماری زبان میں اس کے معنی تنقّص(آہستہ آہستہ کمی کرنے)کے ہیں۔پھر اس نے یہ شعر پڑھا:؏
تخوَّف الرحل منها تامكًا قَرِدًا كما تخوَّف عودَ النبعة السفِنُ
تو اس موقعہ پر سيدنا عمر نے اپنا مشہور مقولہ کہا:
"أيها النّاسُ!تمسّكوا بديوان شعركم في جاهليّتكم،فإنّ فيه تفسير كتابكم" [1]
کہ اے لوگو!اپنے جاہلی شعری دیوان کو لازم پکڑو،کیونکہ اس میں تمہیں کتاب اللہ کی تفسیر ملے گی۔
اسی طرح سیدنا ابن عباس(68ھ)سے مروی ہے،فرماتے ہیں:
’’میں﴿فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾کے معنیٰ سے واقف نہ تھا،کہ دو دیہاتی میرے پاس آئے،وہ ایک کنویں کے بارے میں جھگڑ رہے تھے۔ان میں سے ایک نے کہا:أَنَا فَطَرْتُهَا،یعنی میں نے اس کی ابتداء کی تھی۔‘‘ [2]
ظاہر ہے کہ جب سیدنا عمر فاروق اور ترجمان القرآن ابن عباس کا یہ حال ہے کہ وہ بعض مفرداتِ قرآن کے معانی دوسروں سے معلوم کرتے ہیں تو دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا کیا عالم ہوگا؟ اس میں شک نہیں کہ اکثر صحابہ قرآن کے اجمالی معانی پر اکتفاء کرتے تھے۔مثلاً آیت قرآنی﴿وَفَاكِهَةً وَأَبًّا﴾[3] میں ان کے نزدیک یہ جان لینا کافی تھا کہ اس میں انعاماتِ ربانی کا ذکر کیا گیا ہے۔ضروری نہیں کہ اس آیت کے ہر لفظ کا مفہوم الگ الگ سمجھا جائے۔[4]
صحيح بات يہ ہے کہ حضرات صحابہ فہمِ قرآن اور اس کے معانی ومطالب کے اظہار وبیان میں مساوی الدّرجہ نہ تھے۔اس کے وجوہ واسباب یہ تھے کہ جمیع صحابہ ذہانت وفطانت اور زبان دانی میں یکساں نہ تھے۔بعض صحابہ اس حد تک ماہر اللسان تھے کہ غریب الفاظ تک ان کی نگاہ سے اوجھل نہ تھے۔بعض اس سے کم مرتبہ تھے۔بعض صحابہ صحبتِ نبوی سے مقابلۃً زیادہ مستفید ہوتے اور اس کے نتیجہ میں آیات کے اسبابِ نزول سے دوسروں کی نسبت زیادہ واقف ہوتے۔مزید برآں خدا داد استعداد اور ذہنی صلاحیتوں میں بھی سب صحابہ برابر نہ تھے۔
مشہور تابعی سیدنا مسروق بن اَجدع رحمہ اللہ(63ھ)فرماتے ہیں:
|