"علم يفهم به كتاب اللّٰه المنزّل على نبيّه محمّد صلی اللّٰه علیہ وسلم وبیان معانيه واستخراج أحكامه وحكمه"[1]
کہ تفسیر وہ علم ہے جس کی مدد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب کے معانی سمجھے جاتے اور اس کے احکام ومسائل اور اسرار وحکم سے بحث کی جاتی ہے۔
امام زرکشی رحمہ اللہ ہی دوسری جگہ علم تفسیر کی تعریف یوں کرتے ہیں:
"هو علم نزول الآية وسورتها وأقاصيصها والإشارات النازلة فيها،ثم ترتيب مكّيها ومدنيّها،ومحكمها ومتشابهها وناسخها ومنسوخها وخاصّها وعامها ومطلقها ومقيّدها ومجملها ومفسّرها"[2]
کہ تفسير سے مراد آیات وسور کے نزول،قصص اور ان کے بارے میں نازل شدہ اشارات،مکی ومدنی سورتوں،محکم ومتشابہ،ناسخ ومنسوخ،خاص وعام،مطلق ومقید اور مجمل ومفسر آیات کا علم ہے۔
تفسیر کی ایک تعریف یہ بھی کی جاتی ہے:
"علم یُبحث فيه عن القرآن الكريم من حیث دلالته على مراد اللّٰه تعالى بقدر الطّاقة البشريّة" [3]
کہ یہ وہ علم ہے جس میں بشری استطاعت کی حد تک قرآنِ کریم سے مراد باری تعالیٰ معلوم کرنے کی جستجو کی جاتی ہے۔
دوسرے اور تیسرے قول کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ علم القراءات اور علم الرسم وغيره تفسیر میں شامل نہیں۔حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ بھی تفسیر میں شامل ہیں،کیونکہ قراءات،رسم اور اوقاف میں تبدیلی کی بناء پر معنیٰ بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔مثلاً فرمان باری تعالیٰ﴿فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ﴾[4] میں﴿وَأَرْجُلَکُمْ﴾اور﴿وَأَرْجُلِکُمْ﴾دو متواتر قراءتیں ہیں[5]اور دونوں کا معنیٰ مختلف ہے،لہٰذا تفسیر میں بھی فرق ہوگا،اسی طرح﴿فَمَنْ يُجَادِلُ اللّٰهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْ مَنْ يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا﴾[6] اور﴿أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ﴾[7] میں﴿أَم مَّن﴾مفصولہ ’بلکہ ‘کے معنی میں ہے جبکہ﴿أَمَّن﴾موصولہ کا معنی مختلف ہے،اور یہ معانی کا فرق اختلافِ رسم کی وجہ سے ہے۔وقف کی وجہ سے تبدیلی معنیٰ کی مثال﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا
|