مولانا شبلی رحمہ اللہ نے ندوۃ العلماء کے اجلاس 1912ء میں تقریر کرتے ہوئے سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے بارے یہ یادگار کلمات کہے تھے:
’’ندوہ نے کیا کیا؟ کچھ نہیں کیا،ایک سلیمان پیدا کیا،یہی کافی ہے۔‘‘[1]
سید عاصم ایڈووکیٹ ’یاد رفتگاں از سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ ‘ کے مقدمہ میں سید صاحب رحمہ اللہ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’شبلی مشن یا ندوہ تحریک کی سب سے بہتر پیداوار،قدیم وجدید کے درمیان ایک ہر دلعزیز سفیر علامہ سید سلیمان ندوی کی ذات تھی،جو ملا اور مسٹر دونوں میں محبوب اور دونوں کی زبان سے واقف،دونوں کے طرزِ فکر سے آشنا،دونوں کی مجلسوں میں یکساں بے تکلّف،جس نے لندن کا سفر کیا،کعبہ کا طواف کیا،پیرس کی سیر کی،مدینہ میں حاضری دی،جو جان آف آرک کی موت دیکھ کر متاثر ہوا اور روضۂ اقدس پر پہنچ کر بے اختیار جس کی زبان سے جاری ہوگیا:؏
اے زائرِ بیتِ نبوی یاد رہے یہ بے قاعدہ یاں جنبشِ لب بے ادبی ہے
آہستہ قدم،نیچی نگہ،پست ہو آواز خوابیدہ یہاں روحِ رسولِ عربی ہے
بجھ جائے ترے چھینٹوں سے اے ابر کرم آج جو آگ میرے سینے میں مدت سے دبی ہے
اشک آلود آنکھیں دل کا راز فاش کر گئیں۔‘‘ [2]
ندوہ اور مولانا شبلی رحمہ اللہ کے تعلق سے سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ،مولانا فراہی رحمہ اللہ سے متعارِف ہوئے۔مولانا شبلی رحمہ اللہ کی فرمائش پر مولانا فراہی رحمہ اللہ کے درس وافادہ کا سلسلہ شروع ہوا تو سید صاحب رحمہ اللہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں سبقت کی۔انہوں نے جہاں ندوہ میں مولانا کی آمد اور درس کا حال لکھا ہے وہاں اپنے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میں بھی اس زمانہ میں ندوہ کا طالب علم تھا،مولانا کے ان درسوں سے مستفید ہوا۔‘‘[3]
سید صاحب رحمہ اللہ کے مزاج میں طالب علمانہ نیاز مندی تھی اس لئے وہ جب بھی اور جہاں بھی موقع ملتا فائدہ اٹھاتے تھے۔ندوہ کے دَور قیام میں استفادہ کے بعد مولانا فراہی رحمہ اللہ کے ساتھ سید صاحب رحمہ اللہ کا تعلق ختم نہیں ہوا۔1914ء میں مولانا شبلی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ان کے ادھورے کاموں کی تکمیل کے لئے دارُ المصنّفین قائم کیا گیا تو مولانا فراہی رحمہ اللہ اس کے صدر اور سید صاحب رحمہ اللہ سیکرٹری مقرر ہوئے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ کی صحبتوں کا اثر یہ ہوا کہ سید صاحب نے سیرت میں قرآن کو بنیادی ماخذ بنایا اور اسے اوّلیت کا درجہ دیا۔چنانچہ ایک جگہ وہ خود لکھتے ہیں:
’’سب سے آخری جلوہ قرآنِ پاک کا نظر آیا،مولانا شبلی مرحوم نے اس کا آغاز کیا اور مولانا حمید الدین مرحوم کی دلچسپ ومفید صحبتوں میں یہ چسکا اور آگے بڑھتا گیا اور اسی کا یہ اثر ہوا کہ سیرتِ نبوی کی ہر بحث میں قر آن پاک میری عمارت کی بنیاد ہے اور حدیثِ نبوی اس کے نقش ونگار ہیں۔‘‘[4]
مولانا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ(1999ء)سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے مطالعۂ قرآن میں مولانا فراہی رحمہ اللہ سے استفادہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
|