Maktaba Wahhabi

63 - 535
ہی سے دیتے تھے،یہ شرف ان کو ان کی طبیعت کی انہی خوبیوں کی وجہ سے حاصل ہوا،جن کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا۔‘‘[1] مولانا اختر احسن،امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ سے عمر میں ڈیڑھ،دو سال بڑے تھے۔مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کو اگر کسی جگہ پر کوئی چیز سمجھ نہ آتی تو وہ مولانا اختر احسن اصلاحی رحمہ اللہ سےا س مشکل کا حل نکلواتے۔اس لحاظ سے انہوں نے مولانا اختر احسن اصلاحی رحمہ اللہ کےلئے استاذ کا لفظ بھی استعمال کیاہے،لکھتے ہیں: ’’طالب علمی کے دَور میں تو ہم دونوں کے درمیان ایک قسم کی معاصرانہ چشمک و رَقابت رہی،تعلیم کے میدان میں بھی اورکچھ کھیل کے میدان میں بھی،لیکن مولانا فراہی کے درس میں شریک ہونے کے بعد ہم میں ایسی محبت پیدا ہوگئی کہ اگر میں یہ کہوں تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہو گا کہ ہماری یہ محبت دو حقیقی بھائیوں کی محبت تھی۔وہ عمر میں مجھ سے غالباً سال ڈیڑھ سال بڑے ہوں گے۔انہوں نے اس بڑائی کا حق یوں ادا کیا کہ جن علمی خامیوں کو دور کرنے میں مجھے ان کی مدد کی ضرورت ہوئی،اس میں انہوں نے نہایت فیاضی سے میر ی مدد کی۔بعض فنی چیزوں میں ان کی مدد سے میں نے فائدہ اٹھایا،اس پہلو سے اگر میں ان کو اپنا ساتھی ہی نہیں اُستاذ بھی کہوں تو شائد بے جا نہ ہو گا۔‘‘[2] مولانا فراہی رحمہ اللہ کی وفات کےبعد ان کے غیر مطبوعہ مسودات کی طباعت اور افکار کی جمع وتدوین کے لئے دائرہ حمیدیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا تو سب سے اہم کام اختر احسن اصلاحی کے سپرد ہوا کہ مولانا کے مسودات کی ترتیب وتصحیح کی خدمت مولوی اختر احسن اصلاحی انجام دیں گے۔یہ کام وہ مدت العمر انجام دیتے رہے،اس طرح کہ اس کی خبر صرف محرم اسرار لوگوں کو تھی۔[3] دائرہ حمیدیہ ہی کے زیر اہتمام جب امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی مطبوعات کا اُردو ترجمہ کیا تو اگر وہ خود اس کا ذکر نہ کرتے تو شائد کسی کو علم نہ ہوتا کہ اس میں مولانا اختر احسن اصلاحی رحمہ اللہ کا بھی کچھ حصہ ہے،مولانا امین احسن رحمہ اللہ کے اپنے الفاظ ہیں: ’’مولانا اختر احسن مرحوم اگرچہ تحریر وتقریر کے میدان کے آدمی نہیں تھے،لیکن مولانا کی تصنیفات کے ترجمے کے کام میں انہوں نے میری بڑی مدد فرمائی اور رسالہ میں ان کے مضامین وقتافوقتا نکلتے رہے۔‘‘[4] مولانا اختر احسن اصلاحی(1958ء)کی عاجزی وانکساری کی کیفیت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے ایک شاگرد بدر الدین اصلاحی کی ماتحتی میں رہ کر مدرسۃ الاصلاح اور دائرہ حمیدیہ کی خدمت کی اور دوسرے شاگرد ابو اللیث اصلاحی کی ماتحتی میں رہ کر جماعت اسلامی ہند کی خدمت کی۔وہ کام کے لئے تو ہمیشہ پیش پیش رہتے لیکن نام کے وقت پیچھے چھپ جاتے،اس طرح کہ دایاں ہاتھ کچھ کر رہا ہے تو بائیں ہاتھ کو اس کی خبر نہ ہو۔[5] تفہیم القرآن لکھنے کے دوران سید ابو الاعلیٰ مودودی جانشین فراہی رحمہ اللہ مولانا اختر احسن اصلاحی رحمہ اللہ کو خطوط لکھ کر تفسیر کے مشکل مسائل میں مشورے لیا کرتے تھے۔سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کے ہاں مولانا کا کیا مقام تھا؟ مولانا یوسف اصلاحی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
Flag Counter