Maktaba Wahhabi

61 - 535
نام ایک خط میں اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ شبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس صیغہ کے لئے میاں حمید نے 30 روپیہ ماہوار دینا منظور کیا ہے،30 روپیہ میں بھی دوں گا۔‘‘ [1] دار المصنّفین کے قیام اور اس کے مجوزہ خاکہ میں رنگ بھرنے کی تیاریاں زوروں سے جاری تھیں کہ علامہ شبلی رحمہ اللہ 18 نومبر 1914ء کو وفات پا گئے اور ان کی یہ کوشش ان کی وفات کے بعد ہی بار آور ہو پائی۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کی تحریک پر علامہ شبلی رحمہ اللہ کے ادھورے کاموں کی تکمیل کے لئے ان کے تلامذہ کی ایک جماعت نعمانیہ یا مجلس اخوان الصفا قائم ہوئی۔اسی مجلس نے دار المصنّفین کے قیام کی تجویز کو عملی شکل دی۔مولانا فراہی رحمہ اللہ اس کے صدر اور سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ ان کے ناظم منتخب ہوئے۔[2]دار المصنّفین کے پیش نظر اوّلین کام سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکمیل تھا۔مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اس کے لئے ہر ممکن تعاون دینے میں کبھی دریغ سے کام نہیں لیا،خواہ اس کا تعلق مالی معاونت سے ہو یا قلمی سے۔علامہ شبلی رحمہ اللہ کی وفات پر نواب سلطان جہاں بیگم بھوپال(1930ء)کی طلبی پر مولانا فراہی رحمہ اللہ اور سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ بھوپال گئے اور سیرت کے اہم منصوبہ کی تکمیل کا مسئلہ زیر بحث آیا۔سرکار عالیہ نے انہیں سیرت کے لئے مالی تعاون جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی اور اس کے لئے اپنی سابقہ گرانٹ کو ان دونوں حضرات کے نام جاری کر دیا اور یہی دار المصنّفین کے وجود ونشو ونما کے لئے ابر کرم کی پہلی بارش تھی۔حیدر آباد جا کر مولانا نے کوشش فرمائی اور نواب عماد الملک کی تائید سے وہ کوشش کامیاب ہوئی اور مولانا کا 300 روپے ماہوار کا وظیفہ دار المصنّفین کے نام منتقل ہوا۔یہ دار المصنّفین کے بقا کی بہترین ضمانت تھی۔[3] دار المصنّفین سے مولانا فراہی رحمہ اللہ کے گہرے تعلق کی دلیل یہ بھی ہے کہ وفات کے بعد ان کے ذخیرۂ کتب کا ایک بڑا حصہ دارُ المصنّفین کی لائبریری کی زینت بنا۔یہ ذخیرہ اس اعتبار سے بہت قیمتی ہے کہ ان میں سے متعدد کتابوں پر(جو ان کے زیر مطالعہ تھیں)ان کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے قلمی حواشی وتنقیدی نوٹ ہیں،یہ حواشی نہ صرف متعلقہ کتابوں سے استفادہ میں معاون ثابت ہوتے ہیں بلکہ مختلف موضوعات پر مولانا فراہی رحمہ اللہ کے افکار وخیالات جاننے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔[4]
Flag Counter