خاتمۂ بحث
قرآنِ مجید وہ عظیم کتاب ہے،جسے اللہ عزو جل نے انسانیت کی رُشد و ہدایت کیلئے نازل فرمایا ہے اوریہ کتاب ہمارے لئے مکمل ضابطۂ حیات کی حیثیت رکھتی ہے۔اللہ عزو جل نے اس عظیم الشّان کتاب کے اندر قیامت تک پیش آنے والے تمام مسائل کا حل رکھ دیا ہے اور ان سے نبرد آزما ہونے کی راہنمائی فراہم کردی ہے،لیکن قرآنِ مجید کے زیادہ تر احکام مجمل،مطلق اور عام ہیں۔جن کی تفصیل،تقیید اور تخصیص کے بغیر ان کوسمجھنا مشکل بلکہ گمراہی کی طرف لے جانے کا سبب ہے۔
قرآنِ مجید کی اس مجمل حیثیت کی بناء پر،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ کرام،تابعین عظام اور تبع تابعین سے لے کر آج تک ہر دور میں اہل علم مفسّرین اس کی گھتیوں کوسلجھاتے اور مشکل مقامات کو حل کرتے چلے آئے ہیں۔ہر دَور میں مفسرین کرام نے خصوصی ذوق اور ماحول کے مطابق اس کی خدمت کی اور تفسیر کے مخصوص مناہج اور اصول اپنے سامنے رکھے۔کسی نے تفسیر بالماثور کے منہج کو اپنایا تو کسی نے تفسیر بالرّائے کی پیروی کی۔کسی نے تفسیر القرآن بالقرآن کو حرزِ جان بنایاتو کسی نے لغتِ عرب او رنظم قرآن وغیرہ کو مقدّم رکھا۔بہرحال عہدِ نبوی سے لے کر آج تک عربی اور دیگر زبانوں میں تفاسیرِ قرآن کا سلسلہ جاری ہے اور ہر مفسر کے پیش نظر کچھ اُصول ہیں،جنہیں بنیاد بنا کر وہ قرآنِ مجید کی تفسیر کرتا ہے۔لیکن تفسیر وہی حجّت ہوگی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً ثابت ہو یا صحابہ کرام اسے نقل کریں۔صحابہ کرام کی تفسیر مرفوع حکمی کے اندرداخل ہے،کیونکہ انہوں نے براہِ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تفسیر اخذ کی اور وہ نزولِ وحی کا مشاہدہ کرنے والے تھے اور اگر کوئی آیت انہیں سمجھ نہ آتی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرلیا کرتے تھے۔اس کے علاوہ دیگر تمام تفاسیر،خواہ وہ لغتِ عرب یا نظمِ قرآن کو بنیاد بنا کر کی گئی ہوں یا اپنے اجتہاد سے تفسیر القرآن بالقرآن یا تفسیر القرآن بالحدیث کی گئی ہوں،ہر ایک کیلئے حجت نہیں ہوسکتیں کیونکہ ان میں صحت وسقم دونوں کا برابر امکا ن موجود ہے۔انہیں علمی نکات تو کہا جا سکتا ہے،لیکن حتمی طور پر ان پر مرادِ الٰہی کی مہر نہیں لگائی جا سکتی۔
تفسیر منشائے متکلم کے تعین کا نام ہے،اور کسی عبارت سے منشائے متکلم،اس کے اپنے بتانے کے علاوہ،صرف لغت اور نظم وغیرہ سے اخذ کرناممکن نہیں۔لغت سے متکلّم کی بات کی لغوی وضاحت تو ہوسکتی ہے لیکن اس کی اصل مراد،جو وہ اس کلام سے لینا چاہتا تھا،سب سے بہتر طریقے سے وہ خود بتا سکتا ہے۔اسی لئے کہا گیا ہے:
إِنَّ الْكَلَامَ لَفِي الْفُؤَادِ وَإِنَّمَا جُعِلَ اللّسَانُ عَلَى الْفُؤَادِ دَلِيلًا[1]
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے الفاظ بھی آسمانوں سے نازل کیے ہیں اور معانی(یعنی اپنی مراد)بھی۔[2]فرمانِ بار ی تعالیٰ ہے:
﴿اَلرَّحْمٰنُOعَلَّمَ الْقُرْاٰنَOخَلَقَ الْاِنْسَانَOعَلَّمَهُ الْبَيَانَ﴾[3]
|