Maktaba Wahhabi

500 - 535
مولانا حمید الدّین فراہی رحمہ اللہ تفسیر قرآن میں احادیث مبارکہ کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو فی الواقع انہیں دینی چاہئیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تفسیر کئی مقامات پر جمہو راہل اسلام کی تفسیر سے متصادم ہوجاتی ہے۔ بحث کی آخر میں اس امر کی جانب اشارہ بھی مناسب رہے گا کہ تفسیری روایات کا موجودہ ذخیرہ عثّ و سمین پر مشتمل ہے او راس میں ضعیف اور موضوع روایات بھی شامل ہیں۔ لیکن اس بنیاد پر تمام تفسیری روایات سے صرفِ نظر کرلینا بھی صحیح نہیں۔عموماً مکتبِ فراہی کی طرف سے اس موقف کی تائید میں امام احمد رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا جاتاہے: "ثلاثة کُتبٍ لیس لها أصول:المغازي والملاحم والتّفسیر." [1] کہ تین قسم کی کتابوں کی کوئی اصل نہیں:مغازی،ملاحم اور تفسیر۔ لیکن،جیسا کہ واضح ہے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ تفسیر کا سارا ذخیرہ ہی بے اصل ہے،بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کا بڑا حصہ ضعیف و موضوع روایات پرمشتمل ہے۔اس بات کے قائل تمام علماء ہیں۔علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ کے مذکورہ قول کی تشریح ان کے بعض شاگردوں کے حوالے سے یہ کی ہے: "قال المحقّقون من أصحابه:مراده أنّ الغالب أنه لیس لها أسانید صحاح متصلة،وإلا فقد صحّ من ذلك کثیر،کتفسیر الظّلم بالشرك في آية الأنعام والحساب الیسیر بالعرض والقوة بالرّمي في قوله:﴿وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ." [2] کہ امام احمد رحمہ اللہ کے محقق شاگردوں نے کہا ہے کہ ان کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ تفسیر کی بیشتر روایات صحیح متّصل سندوں سے مروی نہیں ہیں،ورنہ صحیح روایات کی تعداد بھی کافی ہے۔مثلاً وہ روایت جو آیت الانعام میں وارد لفظ ’شرک‘ کی تفسیر ’ظلم‘ سے کرتی ہے،یا وہ روایت جو آیت جو حساب یسیر کی تفسر ’عرض‘ سے کرتی ہے،یا وہ روایت جو آیت کریمہ﴿وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ﴾کی تفسیر رمی سے کرتی ہے۔ یہ نقل کرنے کےبعد علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "الّذي صحّ من ذلك قلیلٌ جدّاً،بل أصحُّ المرفوع منه في غاية القلّة." [3] کہ صحیح روایات بہت کم ہیں،بلکہ صحیح ترین مرفوع روایات تو انتہائی قلیل ہیں۔ اس سے معلوم ہواکہ باوجود یہ کہ تفسیر سےمتعلّق روایات میں بڑی تعداد میں ضعیف اور موضوع روایات شامل کردی گئی ہیں،پھر بھی صحیح روایات کاذخیرہ کم نہیں ہے۔یہ ذخیرہ بڑا قابل قدر ہے،اس سے تفسیر قرآن میں استفادہ کرنا چاہئے۔
Flag Counter