Maktaba Wahhabi

50 - 535
یکم فروری 1907ء کو مولانا نے ایم اے او کالج علی گڑھ کے شعبۂ عربی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے ملازمت شروع کی،گورنمنٹ نے علی گڑھ کالج کو ایک معتد بہٖ عطیہ عربی تعلیم کے لئے دیا تھا،جس کے لیے شرط یہ تھی کہ اس کا پروفیسر کوئی یورپین ہو،چنانچہ جرمن فاضل یوسف ہارویز،جو یہودی تھے،کا اس کے لئے انتخاب ہوا،ساتھ ہی مولانا کا انتخاب مدد گار پروفیسر کی حیثیت سے ہوا،اوروہ علی گڑھ کالج چلے آئے۔[1] علی گڑھ میں مولانا کی تنخواہ 200 روپے ماہوار تھی۔مولانا طلبہ کے علاوہ صدر شعبہ یوسف ہارویز کو بھی عربی پڑھاتے تھے۔مولانا نے ان سے عبرانی پڑھی اور مختصر مدت میں اتنی صلاحیت بہم پہنچائی کہ عبرانی کتابوں سے براہ راست استفادہ کرنے لگے۔[2] مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: ’’اس سفر(لارڈ کرزن کے ساتھ خلیج فارس اور سواحل عرب کے سفر)سے واپسی کے بعد مولانا علی گڑھ میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔علی گڑھ میں اس زمانہ میں عربی کے پروفیسرمشہور جرمن مستشرق یوسف ہارویز تھے۔یوسف ہارویز نے مولانا سے عربی کی تکمیل کی اور مولانا نے یوسف ہارویز سے عبرانی سیکھی اور اس میں اس حد تک ترقی کی کہ عبرانی کتابوں سے براہِ راست استفادہ کرنے لگے اور بعد میں اپنی قرآنی تحقیقات میں اس سے پورا فائدہ اٹھایا۔[3] علی گڑھ میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کا قیام مئی 1908ء تک رہا،اس عرصہ میں کسی اہم تصنیف کی تکمیل یا اس کی اشاعت کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے رسالہ ’اقسام القرآن‘ کی تصنیف اسی دَور سے منسوب کی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ اس رسالے کا خلاصہ علامہ شبلی رحمہ اللہ نے اپریل 1906ء کے الندوہ میں شائع کیا ہے،[4] لیکن ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی کی تحقیق کے مطابق،جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے،مولانا فراہی رحمہ اللہ جنوری 1907ء تک کراچی میں رہے،اس لئے اقسام القرآن کی تالیف کراچی میں ہوئی نہ کہ علی گڑھ میں۔ویسے بھی قرآن کی قسموں پر مولانا کے دو رسالے ہیں:ایک کا نام اقسام القرآن ہے جو بہت مختصر ہے اور دوسرے کا نام امعان فی اقسام القرآن ہے،جو قدرے مبسوط ہے اور بعد کی تصنیف ہے۔[5] محمد سجاد صاحب کے بیان کے مطابق انہوں نے علی گڑھ ہی میں قیام کے دوران اپنے بچوں کے لئے نحو وصرف پر دو رسالے لکھے تھے جو بعد میں مرتب ہو کر کتابی صورت میں اسباق النحو اور اسباق الصرف کے نام شائع ہوئے اور کافی مقبول ہوئے۔[6] مولانا فراہی رحمہ اللہ علی گڑھ میں زیادہ طویل عرصہ نہیں رہے۔تقریباً ایک سال چار ماہ یعنی 31 مئی 1908ء تک یہاں قیام کیا۔پھر مولانا شبلی کےپاس تشریف لے گئے۔ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
Flag Counter