ہے:﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾کہ پھر ہمارے ذمہ ہے اس کی وضاحت کرنا۔چنانچہ یہ اسی وعدہ کا ایفاء ہے کہ اللہ عزو جل نے عربی زبان کو ایک زندہ وقائم زبان بنا دیا ہے،اور اس کو مٹنے سے محفوظ رکھا ہے۔اسی طرح تمام اصطلاحاتِ شرعیہ مثلاً نماز،زکوٰۃ،جہاد،روزہ،حج،مسجد حراتم،صفا،مروہ اور مناسک حج وغیرہ اور ان کے ساتھ جو اعمال متعلّق ہیں،تواتر وتوارث کے ساتھ،سلف سے لے کر خلف تک،سب محفوظ رہے۔ان میں جو معمولی جزوی اختلافات نظر آتے ہیں،وہ بالکل ناقابل لحاظ ہیں۔شیر کے معنی ہر شخص کو معلوم ہیں،اگرچہ مختلف ممالک کے شیروں کی شکلوں اور صورتوں میں کچھ نہ کچھ اختلافات ہیں۔اسی طرح نماز دین میں مطلوب ہے۔وہ وہی نماز ہے جو مسلمان پڑھتے ہیں،ہر چند کہ اس کی ہیئت میں بعض جزئی اختلافات ہیں۔جو لوگ اس طرح کی چیزوں میں زیادہ کرید اور موشگافی سے کام لیتے ہیں،وہ اس دینِ فطرت کے مزاج سے بالکل نا واقف ہیں جس کی تعلیم قرآن پاک نے دی ہے۔
مولانا سننِ متواترہ کو ہر حال میں واجب العمل تسلیم کرتے ہیں۔ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’سلف اور ائمہ نے اپنے مذہب کی صحت کی بدولت کتاب وسنت کو مضبوط سے پکڑا۔یہ نہیں کیا کہ باطل پسندوں اور ملحدوں کی طرح ان میں تفریق کر کے ایک چیز کو ترک کر دیتے۔‘‘[1]
گویا مولانا کے نزدیک سنّت کا انکار کفر والحاد کے مترادف ہے۔وہ قرآن وسنت میں تفریق کے رجحان کے سخت مخالف ہیں۔دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’رسول اللہ کا حکم یکساں طور پر پُر اَز حکمت ہوتا ہے خواہ وہ کتاب اللہ کی بنیاد پر ہو یا اس نور وحکمت کے مطابق جس سے خدا نے آپ کا سینہ بھر دیا تھا۔‘‘[2]
یہ تو سنت کے بارے میں آپ کی رائے ہے لیکن حدیث کو مولانا ثانوی حیثیت دیتے ہیں،فرماتے ہیں:
"من المأخذ ما هو أصل وإمام،ومنها ما هو كالفرع والتبع. أما الإمام والأساس فليس إلا القرآن نفسه،وأمّا ما هو كالتّبع والفرع فذلك ثلاثة:ما تلقّته علماء الأمة من الأحاديث النبوية،وما ثبت واجتمعت الأمة عليه من أحوال الأمم،وما استحفظ من الكتب المنزلة على الأنبياء. ولولا تطرّق الظن والشبهة إلى الأحاديث والتاريخ،والكتب المنزلة من قبل لما جعلناها كالفرع،بل كان كل ذلك أصلا ثابتا يعضد بعضه بعضا من غير مخالفة. " [3]
کہ بعض ماخذ اصل واساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض فرع کی۔اصل و اساس کی حیثیت تو صرف قرآن کو حاصل ہے۔اس کے سوا کسی چیز کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔باقی فرع کی حیثیت سے تین ہیں:وہ احادیثِ نبویہ جن کو علمائے امت نے قبول کیا،قوموں کے ثابت شدہ ومتفق علیہ حالات اور گذشتہ انبیاء کے صحیفے جو محفوظ ہیں۔
اگر ان تینوں میں ظن اور شبہ کو دخل نہ ہوتا تو ہم ان کو فرع کے درجہ میں نہ رکھتے بلکہ سب کی حیثیت اصل کی قرار پاتی اور سب بلااختلاف ایک دوسرے کی تائید کرتے۔
|