Maktaba Wahhabi

483 - 535
اس اقتباس سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں: 1۔قرآن سے زائد احکام میں سنت(حدیث نہیں)اس صورت میں ہی قابل قبول ہوگی،جب قرآن اس اضافے کا متحمل ہوگا۔ 2۔ایسے زائد احکام کا،جن کاقرآن متحمل نہیں یا وہ مخالف قرآن ہیں،وہ موجود ہی نہیں ہیں۔ 3۔نیز یہ اس لیے قابل قبول نہیں ہوسکتے کہ اس سے قرآن کاجلی یاخفی نسخ لازم آتاہے۔ 4۔یہ گنے چنے احکام ہیں،علماء کا اختلاف انہی احکام میں ہواہے۔ ان نکات کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں مغالطہ اور تضادکی آمیزش ہے۔جس کی تفصیل یہ ہے۔ اولاً حدیث وسنت میں فرق کیا گیا ہے،جس کی کوئی دلیل نہیں،محدثین کرام شروع سے آج تک حدیث وسنت کو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ ثانیاً اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ قرآن فلاں زائد احکام کامتحمل ہے اور فلاں کا نہیں۔اگر اسے ہرشخص کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے تو بے شمار اختلاف پیدا ہوں گے۔علماء کے نزدیک تو جو حدیث فنِ حدیث کے اُصولوں کے مطابق صحیح ثابت ہو،وہ قابلِ قبول ہے،مزید کسی شرط کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ثالثاً جواحکام زائدہ قبول کرنے کا قرآن متحمل نہیں ہے،ان کے بارےمیں ایک طرف تو مولانا یہ فرماتے ہیں کہ وہ موجودہی نہیں دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ انہیں اس لیے قبول نہیں کیاجائے گاکہ اس سے نسخ لازم آتاہے،یہ تضادہے۔مزیدبرآں نسخ سے متعلّق وضاحت اوپرگزرچکی ہے۔ پھر مولانافراہی کی یہ بات بھی ناقابلِ فہم ہے کہ مخالفِ قرآن احکام حدیث میں موجودہی نہیں۔پھریہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ احکام گنے چنے ہیں اور انہی کی وجہ سے علما میں اختلاف ہے۔کیا یہ واضح تضادنہیں ؟ حقیقت یہ ہےکہ مولانافراہی رحمہ اللہ نےبعض صحیح احادیث کوبھی قرآن کےمخالف کہہ کرردّ کیا ہے۔چنانچہ ایک طرف ان کا یہ قول سامنے رکھیں: "والعجب کل العجب ممن یقبل ما هو مكذّب لنصّ القرآن مثل كذب إبراهيم عليه السّلام،ونطق النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم بالقرآن من غير وحي. فينبغي لنا أن لّا نأخذ منها إلا ما يكون مؤيّدا للقرآن وتصديقا لّما فيه." [1] کہ سب سے زیادہ تعجب ان لوگوں پر ہے جو ایسی روایتیں تک قبول کرلیتے ہیں جونصوصِ قرآن کی تکذیب کرتی ہیں۔مثلاً سیدنا ابراہیم کے جھوٹ بولنے کی روایت یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلافِ وحی قرآن پڑھ دینے کی روایت۔اس طرح کی روایات کے بارے میں ہمیں نہایت محتاط ہونا چاہئے صرف وہ روایتیں قبول کرنی چاہئیں جو قرآن کی تصدیق و تائید کریں۔ حالانکہ سیدنا ابراہیم سےمتعلق حدیث صحیح بخاری میں ہے۔اور اربابِ علم نے اس کی متعدّد تشریحات کی ہیں،جن سے قرآن وحدیث میں تعارض رہتاہے،نہ کوئی الجھن۔ان توجیہات میں سے ایک توجیہ امام نووی رحمہ اللہ کےالفاظ میں یہ ہے:
Flag Counter