مولانا فراہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"والذي يهمّك(ثالثًا)هو أن تعلم أن الخبر،وإن تواتر لا ينسخ القرآن،وحقّه التأويل أو التوقّف. ألا ترى أن الإمام الشافعيّ وأحمد بن حنبل رحمهما اللّٰه وعامة أهل الحديث يمنعون نسخ القرآن بالحديث وإن كان متواترًا،وصاحب البيت أدرى بما فيه،فمن خالفهم من الفقهاء والمتكلّمين لا نُقيم لرأيهم وزنًا،ونعوذ باللّٰه أن ينسخ الرّسول كلام اللّٰه،ولا بدّ أن يكون وهم أو خطأ من الرّواة. والنّظر في دلائل الفريقين لا يزيدك إلا اطمئنانًا بما هو الحقّ الواضح." [1]
کہ اسی طرح یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ خبر،اگرچہ متواتر ہو،قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی۔اس کی یا تو تاویل کریں گے یا اس میں توقّف کریں گے۔لیکن اس کی خاطر قرآن کو منسوخ نہیں کریں گے۔امام شافعی،احمد بن حنبل رحمہما اللہ اور عام اہل حدیث،حدیث کو قرآن کیلئے ناسخ نہیں مانتے اگرچہ متواتر ہو۔پس جب یہ ائمہ حدیث،جو حدیث کے معاملہ میں صاحب البیت کی حیثیت رکھتے ہیں،اس بات کے قائل نہیں ہوئے تو اس بارے میں ہم فقہاء ومتکلمین کی رائے کو کوئی وزن نہیں دیتے۔اللہ عزو جل ہم کو اس فتنہ سے امان میں رکھے کہ ہم اس بات کے قائل ہوں کہ رسول،اللہ کے کلام کو منسوخ کر سکتا ہے۔اس طرح کے مواقع میں تمام تر راویوں کے وہم اور ان کی غلطی کو دخل ہے۔اور فریقین کے دلائل پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ حق کیا ہے۔
حقیقت یہ ہےکہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ ’’امام شافعی،احمد بن حنبل رحمہما اللہ اور عام اہل حدیث،حدیث کو قرآن کیلئے ناسخ نہیں مانتے اگرچہ متواتر ہو۔‘‘ کلّی طور پر مبنی بر صحت نہیں ہے کیونکہ محدثین میں سے صرف امام شافعی رحمہ اللہ سے بصراحت سنّت سے نسخ القرآن کامطلقاً عدمِ جواز منقول ہے۔مگر امام صاحب کے اس شاذ موقف کی حیثیت ایک اجتہادی خطا سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
کیاہراسی نے امام شافعی رحمہ اللہ کے اس موقف پر بہت کھلے الفاظ میں تردید کی ہے،لکھتے ہیں:
"هفوات الكبار على أقدارهم." [2]
کہ بڑے لوگوں کی ہفوات بھی ان کی طرح قدر آور ہوتی ہیں۔
محمد علی شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’علماء کی ایک بڑی جماعت نے امام شافعی رحمہ اللہ کے اس مسلک کا شدت سے انکار کیا ہے۔‘‘[3]
نواب صدیق الحسن خان قنوجی رقمطراز ہیں:
"وليس بصحيح والحقّ جواز نسخ الكتاب بالسنة. "[4]
کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے درست نہیں،حق یہ ہے کہ سنت سے نسخ الکتاب جائز ہے۔
|