اور سجاد کی پیدائش کراچی آنے سے پہلے ہو چکی تھی۔1900ء کے لگ بھگ کراچی میں ان کے بڑے بيٹے حماد کا انتقال ہوا اور وہ یہی دفن ہوئے۔[1] اس حوالے سے محمد سجاد صاحب کا بیان درجِ ذیل ہے:
’’حماد پہلی اولاد تھے،شادی کے 9برس بعد پیدا ہوئے تھے،9 برس کے ہو کرمرے۔اس کا مولانا کو بہت صدمہ ہوا۔‘‘ [2]
مولانا فراہی رحمہ اللہ پر مولانا شبلی رحمہ اللہ کی راہنمائی ہمیشہ سایۂ فگن رہی،مولانا کراچی میں تھے تو شبلی رحمہ اللہ خطوط کے ذریعے ان کی بھر پور سرپرستی کرتے رہے،مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’معلوم نہیں تم کن مشاغل میں ہو،کوئی علمی کا م بھی کرتے ہو یا نہیں؟‘‘[3]
کراچی میں قیام کے دوران 1903ء میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کا فارسی دیوان ’دیوانِ حمید‘ شائع ہوا۔[4] انہی ایام میں پہلی بار مولانا کی تفسیر نظام القرآن کا ذکر علامہ شبلی رحمہ اللہ کے ایک خط میں آیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نے تفسیر لکھنے کا کام باقاعدہ شروع کر دیا تھا۔قیام کراچی کے دس سالہ دور میں مصر اور بیروت سے کتابوں کی خریداری کا ذکر بکثرت ملتا ہے۔[5] 1903ء کے ایک بل کی رقم 155 روپے ہے،حالانکہ مولانا کی تنخواہ 100 روپے تھی۔اس بل میں جن کتابوں کے نام درج ہیں ان سے مولانا کے علمی ذوق اور معیار کا اندازہ ہوتا ہے۔[6]
اسی دَور میں تفسیر سورۂ ابی لہب اور جمہرۃ البلاغۃ مکمل کی اور مسودہ علامہ شبلی رحمہ اللہ کو بھیجا۔انہوں نے الندوہ میں نظام القرآن اور جمہرہ پر تقریظ وتبصرہ لکھ کر شائع کیا۔[7]شبلی رحمہ اللہ کے تبصرے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’لیکن ان کی جس تصنیف پر ہم ریویو کرنا چاہتے ہیں،اس کے متعلق،ہم ان کی خواہش کی پیروی نہیں کر سکتے،یہ تصنیف(خصوصا اس زمانہ میں اسلامی جماعت کے لئے اسی قدر مفید اور ضروری،جس قدر،ایک تشنہ لب اور سوختہ جان کے لئے آبِ زلال،اس لئے ہم اس کتاب پر مفصل ریویو لکھنا چاہتے ہیں،افسوس ہے کہ مصنف نے یہ کتاب عربی زبان میں لکھی ہے،اس لئے عام لوگ اس سے متمتع نہیں ہو سکتے۔‘‘[8]
اسی سال کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ مولانا نے جائیداد کے ایک مقدمہ میں،جو ان کے والد حاجی عبد الکریم اور پھوپھی کے نواسے مرزا صدر الدین کے درمیان تھا،ثالث بن کر اپنے والد کے خلاف فیصلہ دے دیا جس کے نتیجے میں جائیداد کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھ
|