سبب مفہوم ہی بدل کر رہ گیا ہے اور بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اللہ کی طرف راجع ہے،حالانکہ احادیث میں الفاظ ہیں:عضّوا عليها بالنواجذ[1] اور ضمیر مؤنث سنت کی طرف راجع ہوتی ہے۔ایک جگہ لکھا ہے:صحیح بخاری میں ہے:إن من الأعمال سبع موبقات[2] حالانكہ احادیثِ مبارکہ میں مروی حدیث کے الفاظ ہیں:اجتنبوا السّبع الموبقات[3]
4۔ بعض روایتیں جو فی الواقع صحیح احادیث ہیں،انہیں مولانا نے مسلمانوں کا خیال بتایا ہے۔مثال کے طور پر سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں لکھا ہے:"وقد اتفقت العلماء من السّلف إلى الخلف على أن السّبع المثاني هذه سورة الفاتحة"[4] کہ سلف سے لے کر خلف تک علماء کا اتفاق ہے کہ سبع مثانی سے مراد یہی سورۂ فاتحہ ہے۔حالانکہ موطا امام مالک،مسند احمد،صحیح بخاری،جامع ترمذی،سنن نسائی اور دوسری کتبِ حدیث میں متعدّد ایسی روایتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ فاتحہ کو سبع مثانی قرار دیا ہے۔اسی طرح سورۂ اخلاص کے بارے میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک یہ سورت ’ثلث قرآن‘ ہے۔[5]حالانکہ موطا امام مالک،صحیح بخاری،جامع ترمذی،سنن ابو داؤد،سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ وغیرہ میں موجود روایتیں اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بتاتی ہیں۔
5۔ اس کے بر خلاف صحابہ یا تابعین سے مروی بعض روایات کو مولانا حدیث سے تعبیر کر دیتے ہیں۔حالانکہ عموماً جب لفظِ حدیث بولا جائے تو ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہوتا ہے،صحابہ وتابعین کیلئے آثار کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔مثال کے طور پر اپنی کتاب التکمیل في أصول التأویل میں التّفسیر بالأحادیث کے عنوان کے تحت مولانا نے ان لوگوں پر تنقید کی ہے جو منقول کو۔خواہ وہ ضعیف ہو۔لائق اتباع قرار دیتے ہیں اور اسے گمراہ کن قرار دیا ہے۔لیکن اس جو مثال دی ہے اس میں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں،بلکہ تین اقوال ہیں،جن میں سے ایک سیدنا ابن عباس کی طرف منسوب ہے،دوسرا قتادہ(118ھ)اور سدی(127ھ)کی طرف اور تیسرا ابن زید(93ھ)کی طرف۔[6]آگے فرماتے ہیں:
"والتّفسير بالحديث يناسب المقام،إذا لم يقرر عقيدة ومذهبا مأمون،ولكن مع ذلك ظني." [7]
کہ قرآن کی تفسیر ایسی حدیث سے کرنے میں،جو مناسبِ حال ہو اور اس سے کسی عقیدہ اور مسلک کا اثبات نہ ہوتا ہو،کوئی حرج نہیں،لیکن اس کے باوجود وہ ظنّی ہے۔
|