مولانا فراہی رحمہ اللہ اور فرعی مآخذ تفسیر
مولانا حمید الدّین فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک تفسیر کے اصول تین قسموں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں:
1۔ بنیادی اصول:جن کا سہارا اس وقت لیا جاتا ہے جب عبارت کے ایک سے زیادہ لینے کا احتمال نہ ہو۔ان کو بالعموم اختیار کیا جانا ضروری ہے۔قرآن کی تفسیر کے بنیادی اُصول مولانا کے نزدیک چار ہیں۔
(۱) نظمِ کلام اور سیاق وسباق کا لحاظ
(۲) نظائرِ قرآن کی روشنی میں مفہوم کا تعین
(۳) کلام میں مخاطب کا صحیح تعین
(۴) الفاظ کے شاذ معانی کا ترک
2۔ ترجیح کے اصول:جو اس وقت اختیار کیے جائیں گے جب ایک مقام پر کئی مفہوم لینا ممکن ہو۔ان اُصولوں کی روشنی میں ہم متعین کر سکیں گے کہ کون سا مفہوم ترجیح کے لائق ہے اور کسی کی حیثیت مرجوح ہے۔ان کی روشنی میں ہم صرف راجح معنی کو اختیار کریں گے،اور مرجوح معنی کو ترک نہیں کر دیں گے۔ترجیح تاویل کے یہ اُصول پانچ ہیں:
(۱) وجوہ کے اختلاف کے وقت جو معنیٰ سیاق وسباق اور عمود کلام کے زیادہ قریب ہوگا وہ لے لیا جائے گا۔
(۲) جب کلام مختلف احتمالات رکھتا ہو تو اس مفہوم کو ترجیح دی جائے گی جس کی نظیر باقی قرآن سے ملتی ہو۔جن معانی کو قرآن کی موافقت حاصل نہیں ہو گی وہ ترک کر دیے جائیں گے۔
(۳) اگر کوئی مفہوم کلام میں موجود عبارت کے علاوہ کسی دوسری عبارت کا تقاضا کرتا ہو تو یہ مفہوم مرجوح ہوگا۔
(۴) احسن پہلو رکھنے والی تفسیر کو لیا جائے۔احسن پہلو رکھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ بلند حقائق اور عمدہ اخلاق سے مطابقت رکھتی ہو،دلوں کے لیے بالکل واضح ہو،قرآن کی محکم آیات کے مطابق ہو،اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں اچھا ظن پیدا کرتی ہو اور عربی زبان کے اعتبار سے اس کا بیان ظاہر ہو۔
(۵) لغوی طور پر ثابت شدہ معانی کو اختیار کیا جائے۔الفاظ کے معروف معانی لینا بھی لغوی ثابت شدہ معانی اختیار کرنے میں شامل ہے ... اسی طرح شاذ اور منکر لفظ کو ترک کر دیا جائے گا۔
3۔ غلط اُصول:جن پر لوگوں نے تفسیر میں اعتماد کر لیا حالاکہ ان کی حیثیت ایسی نہ تھی کہ ان پر اعتماد کیا جاتا۔ان کا تذکرہ صرف اس لئے کیا جائے گا کہ لوگ ان سے اجتناب کریں۔اس میں مولانا نے حدیث کا تذکرہ کیا ہے۔قرآن کی تاویل حدیث کی روشنی میں کرنا تو غلط تفسیر ہے،جبکہ حدیث کی تاویل قرآن کی روشنی میں ہونی چاہئے۔[1]
|