Maktaba Wahhabi

422 - 535
لیکن جمہور مفسرین کے نزدیک مولانا فراہی رحمہ اللہ کاموقف مبنی برغلطی ہے۔تمام علمائے امت اور مفسرين كا اجماع ہے کہ یہاں ذبح سے حقیقتاً اللہ کی راہ میں خون بہا کر قربان کرنا ہے،کیونکہ یہی تو اصل آزمائش ہے۔سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہیچ مداں جامع ذوق اس مقام پر اس واقعہ کو حضرت ابراہیم کی اجتہادی غلطی ماننے سے اباء کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے جو محبتِ الٰہی میں سرشار تھے،خطائے اجتہادی سے نہیں بلکہ غلبۂ شوق واطاعت ومحبت میں اس حکمِ الٰہی کی تعمیل اپنی طرف سے بالکل بعینہٖ وبلفظہٖ کرنے پر آمادہ ہوگئے تاکہ اس ابتلاء میں وہ اللہ عزو جل کے حضور میں پورے اتریں اور اپنی طرف سے بیٹے کی جان کی قربانی کی جگہ اس کی خدمت توحید وتولیت کعبہ کیلئے وقف کر دینے کی تاویل کا سہارا لے کر نفس کی متابعت کے شبہ اور دھوکے سے بھی پاک رہیں تا آنکہ اللہ عزو جل خود اس حقیقت کو خود اپنے لفظوں میں فرما دے۔[1] پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدّیقی اس حوالے سے رقمطراز ہیں: ’’اگرچہ اس خاکسار راقم کی سطور کی جسارت بے جا سمجھی جائے گی تاہم یہ کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ قرآنِ مجید کی ذبح عظیم سے متعلّق سورۂ صافات کی آیات کریمہ 101 تا 108[2]میں اصل آیت 103 میں خواب ابراہیمی میں فرزند کو ذبح کرنے کی بات کہی گئی ہے اور آیت نمبر 105 میں حضرات ابراہیم کے خواب کو سچ کر دکھانے کی بات کہی گئی ہے یعنی﴿قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا﴾کہ تونے سچ کر دکھایا خواب۔اس سے بلا شبہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذبح سے مرادِ الٰہی حقیقی قربانی تھی یعنی چُھری سے گردن کی شہ رگ کاٹ کر خون بہا کر جان کی قربانی اور حضرت ابراہیم نے صحیح مرادِ الٰہی کو سمجھا تھا جس پر تصدیقِ خواب کا لفظ گواہی دیتا ہے اور آیت 106 میں مذکور اسی کو بلاء مبین کہا گیا ہے۔تیسری دلیل ذبح عظیم سے اس کا فدیہ قرار دینا ہے جس پر آیت 107 دلالت کرتی ہے۔قرآن سے قربانی کے معنی خدمتِ کعبہ اور تولیتِ کعبہ کے لئے نذر کرنا قطعی ثابت نہیں ہوتا۔یہ دوسری بات ہے کہ جب ابراہیم نے اپنا خواب سچ کر دکھانا چاہا تو اللہ عزو جل نے فرزند کی قربانی کو ذبحِ عظیم سے بدل دیا کہ اصلاً مقصود آزمائش تھی۔‘‘ [3]
Flag Counter