شوکانی رحمہ اللہ(1250ھ)نے بعض علماء کے حوالے سے صرف چار قرآنی آیات بیان کی ہیں کہ جو اپنے عموم پر باقی ہیں۔[1]
تمام فقہائے احناف،مالکیہ،شافعیہ اور حنابلہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تخصیص کے بعد عام کی دلالت باقی افراد پر ظنّی ہوتی ہے،لہٰذاجمہور اور احناف کے مسلک میں فرق بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔کیونکہ استقراء سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ہر عام کا کوئی نہ کوئی مخصص ہے،لہٰذا تخصیص کے بعد اس عام کی دلالت اپنے باقی افراد پر فقہائے اربعہ کے نزدیک ظنی ہو گی۔
عام کی تخصیص بعض اوقات عقل سے ہوتی ہے،بعض اوقات عرف و عادت سے،بعض ا وقات خودقرآن سے اور بعض اوقات سنت سے ہوتی ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اہل سنت میں سے کسی کا بھی یہ موقف نہیں ہے کہ قرآن کاہر ہر لفظ قطعی الدّلالۃ ہے۔البتہ اہلِ سنت میں اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ قرآن کے کتنے مقامات قطعی الدلالۃ ہیں اور کتنے ظنی الدلالۃ؟
قطعی الدلالۃ کا لغوی معنیٰ یہ ہے کہ لفظ قطعی کا مادہ ’قطع‘ ہے کہ جس کا معنی عربی زبان میں کاٹنا،جدا کرنا یا علیحدہ کرنا ہیں۔[2] اور دلالت سے مراد کسی لفظ کا معنیٰ یا مفہوم ہے۔[3]لہٰذا کسی لفظ کے قطعی الدلالۃ ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس لفظ کا صرف ایک ہی معنی ہے اور دوسرے معانی لینے کے احتمالات ختم ہو چکے ہیں۔
جیسا کہ پیچھے ذکر ہو چکا ہے کہ فقہائے اہل سنت کے نزدیک قرآن کا بعض حصہ قطعی الدلالۃ ہے اور بعض ظنی الدلالۃ۔قرآن کے بعض الفاظ کو قطعی الدلالۃ کہنے سے ان کی مرادیہ ہے کہ کوئی ایسی دلیل نہیں کہ جو ان الفاظ کے اپنے وضعی معنی پر دلالت میں مانع ہو۔اگر قرینہ صارفہ یا دلیل ہو تو سب علمائے اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن کےالفاظ قطعی الدلالۃ ہوں یا ظنی الدلالۃ،انہیں ان کے لغوی و وضعی معنی و مفہوم سے پھیرا جا سکتا ہے،اور ان کے نزدیک وہ دلیل جو قرآن کو اس کےقطعی الدلالۃمفہوم سے پھیر دے،عقل بھی ہو سکتی ہے اورحس و مشاہدہ بھی،عرف و عادت بھی ہو سکتی ہے اوراجماعِ امت بھی،حدیثِ نبوی بھی ہو سکتی ہے اور قولِ صحابی بھی،اور خود نص قرآنی بھی ہو سکتی ہے۔مثلاً قرآن کریم میں ملکہ سبا کے بارے میں ہے:﴿وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ﴾[4]کہ ملکہ سبا کو ہر چیز دی گئی تھی۔اس آیت کا یہ مفہوم مشاہدے اور حس کے خلاف ہے،لہٰذا اس آیت میں﴿مِنْ كُلِّ شَيْءٍ﴾سے مراد ہر چیز نہیں بلکہ وہ چیزیں مراد ہوں گی جو عام طور پر بادشا ہوں کے پاس ہوتی ہیں،لہٰذا س آیت کی تخصیص بھی ہو گئی کیونکہ یہ اپنے عموم پر باقی نہ رہی اور اسکے مفہوم میں تبدیلی بھی ہو گئی کیونکہ﴿مِنْ كُلِّ شَيْءٍ﴾اپنے لغوی معنیٰ پر برقرار نہ رہا۔
قرآنِ کریم کی ایک آیت کی دوسری آیت کے ذریعہ تخصیص کی مثال اللہ عزو جل کا ارشاد ہے:
|