قرآنِ کریم کی دلالت کی قطعیت
قرآن کریم کے دو پہلو بہت نمایاں ہیں۔ایک اس کے الفاظ کہ جن کی تلاوت کی جاتی ہے اور دوسرا اس کے معانی کہ جن پر عمل کیا جاتا ہے۔الفاظ و معانی کا رشتہ آپس میں لازم و ملزوم کا رشتہ ہے۔ہر دور میں انسان اپنے ’ ما فی ضمیر ‘ کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے زبان کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔انسان اپنے خیالات،افکار،نظریات،جذبات اور احساسات کو اپنے ہی جیسے دوسرے افراد تک پہنچانے کے لیے الفاظ کو وضع کرتے ہیں۔کسی بھی زبان میں کسی مفہوم کی ادائیگی کے لیے جو الفاظ وضع کیے جاتے ہیں وہ دوطرح کے ہوتے ہیں یا تو کسی لفظ کو اہل زبان کسی ایک معلوم(یعنی متعین)معنی ومفہوم کو ادا کرنے کے لیے وضع کرتے ہیں اس کو اصولیین کی اصطلاح میں ’خاص‘ کہتے ہیں مثلاً اردو زبان میں اس کی سادہ سی مثال کسی کا نام ہے۔جب والدین کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس بچے کو پکارنے،بلانے،اس سے متعلق کسی کو خبر دینے وغیرہ کے لیے اس کا ایک نام رکھ لیتے ہیں،کسی مفہوم یا تصورکا کسی لفظ کے ساتھ یہ الزام وضع کہلاتا ہے۔
ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں:
"وفي اصطلاح الأصوليين:هو كل لفظ وضع لمعنى واحد على الانفراد. " [1]
كہ اصولیوں کے اصطلاح میں ’خاص‘ سے مراد ہر وہ لفظ ہے جو انفرادی طور پر کی ایک معنیٰ ومفہوم کے لئے وضع کیا گیا ہو۔
اصل چیز مفہوم ہوتا ہے نہ کہ الفاظ،کیونکہ الفاظ تو مفہوم کی ادائیگی کے لیے وضع کیے جاتے ہیں لیکن اس لحاظ سے الفاظ کی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ انسان کے ما فی الضمیر کی ادائیگی کا ایک اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔الفاظ و معانی کا یہ تعلق لازم و ملزوم کا ہے مثلاً ’خالد‘ ایک لفظ ہے جو ایک معین ذات پر دلالت کرنے کیلئے وضع کیا گیا ہے اس لیے یہ خاص ہے۔اگر استاذکلاس روم میں طلبہ سے کہتا ہے:
’’خالد کی ڈیوٹی ہے کہ وہ روزانہ بلیک بورڈ صاف کرے گا۔‘‘
اس عبارت میں لفظِ ’خالد‘ خاص ہے اور اس سے ایک ہی متعین مفہوم اور ذات مراد ہے۔بعض اوقات اہل زبان جب کوئی لفظ وضع کرتے ہیں تو وہ بہت سے غیر متعین افراد کو یکبارگی شامل ہوتا ہے جسے اصولیین کی اصطلاح میں ’عام‘ کہتے ہیں۔اس کی سادہ سی مثال اردو زبان میں لفظ ’جو‘ ہے۔اگر کوئی استاد اپنی کلاس کے طلبہ سے کہے:
’’جو بھی کلاس روم میں ہے کھڑا ہو جائے۔‘‘
اس جملے میں لفظ ’جو‘ عام ہے اورکلاس کے تمام افراد کو شامل ہے،اس لیے کلاس کے ایک ایک طالب علم کو یہ حکم شامل ہو گا۔بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک لفظ ایک اعتبار سے خاص ہوتا اور دوسرے پہلو سے عام ہو تا ہے مثلاً لفظ ’شیر‘ ہے،یہ لفظ باقی حیوانات چیتا،ہاتھی،بندر اور لومڑی وغیرہ کے اعتبار سے خاص ہے کیونکہ اس کا ایک خاص معنی و مفہوم ہے کہ جس میں اس کا غیر شریک نہیں ہو سکتا،اس کو اصولیین کی اصطلاح میں خاص نوعی کہتے ہیں یعنی جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو ایک ہی نوع انسان کے ذہن میں
|