آيتان إحداهما توجب الغسل والأخرى المسح لما جاز ترك الغسل إلى المسح"[1]
اربابِ تفسیر کی اس اجماعی روش کے برعکس مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ قراءات کے بارے میں ایک اور ہی نقطۂ نگاہ رکھتے ہیں،جس سے ان کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مختلف قراءاتِ متواترہ کو باقاعدہ قرآن تسلیم نہیں کرتے،بلکہ اس شرط کے ساتھ کہ وہ معانی قرآن کے مخالف نہ ہوں،محض تفسیری حیثیت سے انہیں لائقِ استدلال سمجھتے ہیں۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ سورۂ لہب کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:
"إن كلمة﴿حَمَّالَةَ﴾منصوبة،وأجمع المسلمون كلهم على هذه القراءة. والقرآن يحفظه اللّٰه كما وعد. ولا يعتمد إلى على القراءة المتواترة المحفوظة. ولا ننكر اختلاف القراء إذا لم تختلف المعاني. فإنهم أرادوا بذلك تفسيرا وتقريبا إلى فهم المخاطب،فقرءوا بالرفع ليدلّ بوجه آخر على ما يفهم من النصب"[2]
کہ لفظ﴿حَمَّالَةَ﴾منصوب ہے۔تمام امت اس قراءت پر متفق ہے۔قرآن کی حفاظت کا اللہ عزو جل نے وعدہ فرمایا ہے۔متواتر اور محفوظ قراءت کے ہوتے ہوئے شاذ قراءت اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ہم قراءت کے اختلاف کے منکر نہیں ہیں۔بشرطیکہ یہ اختلاف معانی کے اختلاف تک نہ پہنچ جائے۔اہل قراءت جو مختلف قراءتیں بیان کرتے ہیں اس سے ان کا مقصود تفسیر اور اصل مطلب کو مخاطب کے ذہن سے قریب تک کرنا ہوتا ہے۔چنانچہ بعض لوگوں نے﴿حَمَّالَةَ﴾کو رفع کے ساتھ بھی پڑھا ہے،لیکن وہ ایک دوسرے طریقہ سے وہی مطلب سمجھانا چاہتے ہیں جو نصب والی قراءت سے مقصود ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ اختلافِ قراءات کو محض تفسیری زاویۂ نگاہ سے اہمیت دیتے ہیں۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ کے شاگردِ خاص مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ بھی اپنے استاد امام کی تائید میں فرماتے ہیں:
’’غور کرنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ قراءتوں کا اختلاف در اصل قراءتوں کا اختلاف نہیں،بلکہ اکثر وبیشتر تاویل کا اختلاف ہے۔کسی صاحب تاویل نے ایک لفظ کی تاویل کسی دوسرے لفظ سے کی اور اس کو قراءت کا اختلاف سمجھ لیا گیا،حالانکہ وہ قراءتوں کا اختلاف نہیں بلکہ تاویل کا اختلاف ہے۔مثلاً سورۂ تحریم میں بعض لوگوں نے(فقد صغت)کو(فقد زاغت)بھی پڑھا۔صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس نے بھی یہ پڑھا ہے اس نے یہ قراءت نہیں بتائی،بلکہ اپنے نزدیک اس نے(فقد صغت)کی تاویل کی ہے،لیکن لوگوں نے اس کو بھی قراءت سمجھ لیا۔ہمارے نزدیک قراءتوں کے اختلاف کو خلیفہ راشد سیدنا عثمانِ غنی نے ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا تھا اور انہوں نے یہ ’عظیم کارنامہ‘ تمام صحابۂ کرام کے اتفاقِ رائے سے انجام دیا۔اس وجہ سے اس کو اجماع کی حیثیت حاصل ہے۔اس کے بعد اس کے باقی رہنے کیلئے کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘ [3]
|