ایک ایسی محققانہ تفسیر لکھی،جس کی نظیر متقدّمین کی تصنیفات میں بھی کم ملتی ہے۔
جس نے مسلسل چالیس برس تک قرآن مجید کی خدمت کی۔جس نے معارفِ قرآنی کی تحقیق میں سیاہ بالوں کو سفید کیا۔جس کی تفسیروں سے عرب وعجم کے ہزاروں مسلمانوں میں تدبر فی القرآن کا ذوق پیدا ہوا۔جس کی تحریروں کا ایک ایک لفظ گواہی دے رہا ہے کہ وہ قرآن کا عاشق ہے اور اس کے لفظ لفظ پر جان نثار کرتا ہے۔‘‘[1]
شاہ معین الدین ندوی مرحوم لکھتے ہیں:
’’مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ ان علمائے کرام میں سے ہیں جنہوں نے اسلام خصوصاً قرآن پاک کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں۔کلامِ مجید کے فہم اور مشکلات قرآنی کے حل میں اللہ عزو جل نے ان کو خاص ملکہ عطا فرمایا تھا،اور اس حیثیت میں وہ اس دور کے صحیح معنوں میں ترجمان القرآن تھے۔‘‘[2]
مولانا عبد الحق صاحب بی اے،سیکرٹری انجمن ترقی اردو مولانا کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’مولانا حمید الدین رحمہ اللہ قرآن پاک کے والہ وشیدا ہی نہیں تھے،بلکہ اس کے نکات اور معانی جس طرح وہ سمجھتے تھے،شائد ہی کوئی دوسرا سمجھتا ہو۔آخری عمر میں انہوں نے ساری توجہ ترتیب ونظام قرآن کی طرف مبذول کر دی تھی،جس سے ان کی وسعت نظر اور تحقیق وتدقیق کا ثبوت ملتا ہے۔یہ ان کی ساری عمر کی محنت اور کاوش کا نتیجہ تھا۔انہوں نے قرآن مجید پر ہر پہلو سے غور کیا تھا،اور کوئی نکتہ ایسا نہیں تھا جو ان کی نظر سے بچا ہو۔‘‘[3]
|